پرائم منسٹر سیکرٹریٹ کے ایماءپر ایسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے پاکستان سپورٹس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر اخترنواز گنجیرا کو تین ماہ کیلئے معطل کئے جانے کے نوٹیفیکیشن کی بازگشت نہ صرف کھیلوں کے حلقوں بلکہ پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیوں اور پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے اجلاس میں بھی سنائی دی اور اس بات پر حیرت کا اظہار کیا گیا کہ متعلقہ وزیر اور سیکرٹری کو اعتماد میں لئے بغیر پاکستان سپورٹس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل کو معطل کرنا اور وہ بھی بغیر کسی چارج شیٹ کے قوائد اور اخلاقی تقاضوں کے برخلاف ہے۔ ایسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے مراسلے پر وزارت بین الصوبائی رابطہ نے ڈی جی پاکستان سپورٹس بورڈ کو معطل کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کرنا ہی تھا۔ مگر آفریں وزیر بین الصوبائی رابطہ میاں ریاض حسین پیرزادہ، جنہوں نے اعلیٰ حکام کی اس اقدام کو وزارت کے معاملات میں بے جا مداخلت قرار دیتے ہوئے بطور احتجاج وزارت سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا ۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ وفاقی وزیر میاں ریاض حسین پیرزادہ نے بطور وزیر کھیل اور ڈاکٹر اختر نواز گنجیرا نے بطور ڈائریکٹر جنرل، پاکستان سپورٹس بورڈ، ملک میں کھیلوں کے فروغ اور ان کا معیار بہتر بنانے کیلئے گرانقدر کردار ادا کیا۔ انہوں نے پاکستان میں انٹرنیشنل سپورٹس کے بند دروازوں کو کھولنے کیلئے کھیلوں کی مختلف فیڈریشنوں کو پاکستان سپورٹس بورڈ کی جانب سے نہ صرف مالی بلکہ لاجسٹک سپورٹ بھی فراہم کی۔پاکستان سپورٹس بورڈ میں نوجوانوں کیلئے کھیلوں کی تمام سہولیات بالکل مفت کر دیں۔ آج اگر کوئی شخص نہ صرف پاکستان سپورٹس بورڈ بلکہ پی ایس بی کے زیر انتظام پاکستان کے چاروں صوبائی ہیڈ کوارٹرز میںچلنے والے کوچنگ سنٹرز کا دور کرے تو اسے وہاں نوجوان کھلاڑی کھیلتے ہوئے اور عمر رسیدہ لوگ جاگنگ کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ پاکستان سپورٹس کمپلیکس میں آئے روز کسی نہ کسی سکول/کالج یا یونیورسٹی کا سپورٹس گالا ہو رہا ہوتا ہے ۔ پاکستان سپورٹس کمپلیکس میں آ کر اور نوجوان لوگوں کو مختلف کھیل کھیلتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ ہماری قوم کا مستقبل بھی تابناک ہے۔ کیونکہ جو قومیں کھیلوں میں آگے ہوتی ہیں وہی قومیں زندگی کے باقی شعبوں میں بھی آگے ہوتی ہیں۔ پاکستان سپورٹس کمپلیکس کی خوبصورتی کو چار چاند لگانے میں میاں ریاض پیرزادہ اور ڈاکٹر گنجیرا نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وفاقی حکومت نے کیا صلہ دیا۔ کھیلوں کی مختلف فیڈریشنوں نے وفاقی حکومت کے اس اقدام کو انتہائی غیر اخلاقی قراردیا ہے اور کہا ہے کہ اگر ڈی جی کے خلاف مالی بد عنوانی کے کوئی الزامات ہیں تو انہیں معطل کئے جانے سے پہلے ان کے خلاف محکمانہ انکوائری کے ذریعے ان الزامات کی تحقیقات ہونی چاہیئے تھیں۔ اور اگر وہ قصور وار ہوتے تو انہیں ان کے خلاف تادیبی کاروائی کا کوئی جواز بنتا تھا۔نواز شریف حکومت کے وزیر خزانہ اور وزیر منصوبہ بندی سمیت مختلف وفاقی وزراءگڈ گوورنس کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں مگر وزیر اعظم ہاﺅس کی بیوروکریسی اتنی طاقتور ہے کہ وہ بیشتر وزارتوں کے ماتحت اداروں میں براہ راست تعیناتیاں اور احکامات صادر کرتی ہے ۔ یہ بیوروکریسی گنتی کے چند وزراءکو چھوڑ کر باقی وزراءکو بالکل گھاس نہیں ڈالتی ۔ مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی ہمیشہ شاقی رہے کہ وہ وزیر اعظم ہاﺅس کی یاترہ کر سکیں مگر ہر بار یہ بیوروکریسی آڑے آتی رہی۔ اس نے وزیر اعظم کے گرد اپنا ایک حصار قائم کر رکھا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ تو دور کی بات، اکثر وزیر اعظم سے ون آن ون ملاقات کے خواہشمند اکثر وزراءکو وزیر اعظم سے ہاﺅس سے ٹکا سا جواب ملتا ہے۔ یہ صورتحال کسی طور بھی حکومت کے مفاد میں نہیں۔ کیا وزیر اعظم کو اس صورتحال کا ادراک ہے۔وزیر بین الصوبائی رابطہ میاں ریاض حسین پیرزادہ گذشتہ کچھ عرصے سے وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری فوادحسن فواد کی جانب سے بلا جواز مداخلت سے بے حد نالاں تھے۔ انہوں نے وزیر اعظم سے بالمشافہ ملاقات کی کئی بار کوشش کی تاکہ وہ تمام معاملات وزیر اعظم کے گوش گذار کر سکیں مگر انہیں وزیر اعظم سے اس طرح دور رکھا گیا جیسے وہ وزیر اعظم ہاﺅس کیلئے ناپسندیدہ شخصیت ( Personna Non Granta) ہوں ۔جاس صورتحال نے میاں ریاض حسین پیرزادہ کو اتنا زچ کر دیاکہ وہ مجبوراً وزارت سے الگ ہونے عندیہ دے رہے ہیں۔ دوسرے وزراءنے بھی ایسا طرز عمل اختیار کر لیا تو حکومت مشکل میں پڑ سکتی ہے۔ وزراءاور ارکان قومی اسمبلی کی لائلیٹی کو برقرار رکھنے کیلئے وزیر اعظم کو پرائم منسٹر سیکرٹیریٹ کی بیورو کریسی کی باگیں کھینچنی پڑیں گی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38