جنت کے پھول

Apr 29, 2017

علامہ منیر احمد یوسفی
سیدالشہداء حضرت سیّدنا اِمام حسینؓ کی ولادتِ مبارک ۵ شعبان المعظم ۴ھ کو مدینہ طیبّہ میں ہوئی۔ سرکارِ اَقدسؐ نے آپ کے کان میں اذان پکاری‘ (مستدرک حاکم جلد ۳ص ۷۹۱حدیث نمبر ۷۲۸۴)منہ میں اپنا لعاب دہن شریف ڈالا اور آپ کے لئے دُعا فرمائی۔ پھر ساتویں دن آپ کا نام ’’حسینؓ‘‘ رکھا اور عقیقہ کیا اور سر کے بال منڈوا کر اُن کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کی۔ (مستدرک حاکم جلد ۳ص ۷۹۱حدیث نمبر ۸۲۸۴) اِمام حسینؓ کی کنیت‘ ابو عبداللہ اور لقب’’سبطِ رسول‘‘ و’’ریحانِ رسول‘‘ ہے۔
امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علیؓ فرماتے ہیں، جب اِمام حسینؓ پیدا ہوئے تو آپؐ نے فرمایا، مجھے میرا بیٹا دکھاؤ ‘آپ نے اِس کا کیا نام رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا ’’حرب‘‘ نام رکھا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: نہیں‘ اِس کا نام ’’حسینؓ‘‘ رکھو۔ حدیث شریف میں ہے‘ رسولِ کائناتؐ نے فرمایا کہ حضرت ہارونؑ نے اپنے بیٹوں کا نام شبر و شبیر رکھا اور میں نے اپنے بیٹوں کا نام اُنہیں کے نام پر حسنؓ اور حسینؓ رکھا۔ سُریانی زبان میں شبر و شبیر اور عربی زبان میں حسن و حسین دونوں کے معنی ایک ہی ہیں ۔
حضرت اُمّ الفضل بنت الحارث سے روایت ہے، فرماتی ہیںکہ وہ رسولِ کریمؐ کی خدمت ِاَقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ ’’میں نے رات ایک بہت مکروہ خواب دیکھا ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: وہ کیا ہے؟ عرض کیا‘ وہ بہت سخت خواب ہے۔ فرمایا: بتائو تو سہی۔ عرض کیا: ’’آپؐ کے جسم اَطہر سے گوشت کا ایک ٹکڑا کٹا ہے اور میری گود میں رکھا گیا ہے۔ رسولِ کریمؐ نے فرمایا: تونے بہت اچھا خواب دیکھا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ حضرت فاطمۃ الزہرہؓ ایک لڑکے کو جنم دے گی اور وہ تیری گود میں آئے گا۔ چنانچہ حضرت فاطمۃ الزہرہؓ نے اِمام حسینؓ کو جنم دیا۔ حضرت اُم فضلؓ فرماتی ہیں پھر وہ میری گود میں آیا جیسا‘ رسولِ کریمؐ نے فرمایا تھا‘‘۔ ( مشکوٰۃ ص ۲۷۵ حدیث نمبر ۰۸۱۶)
اِمام حسینؓ کے فضائل میں بہت اَحادیث ِمبارکہ وارد ہیں۔حضرت یعلی عامری بن مرۃؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ حضور پرُ نور سَیّد ِکائناتؐ نے فرمایا: ’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ‘‘۔ یعنی اِمام حسینؓ کو حضور نبی کریمؐ سے اور حضور نبی کریمؐ کو اِمام حسینؓ سے اِنتہائی قرب ہے۔ گویا کہ دونوں ایک ہیں تو اِمام حسینؓ کا ذکر حضور نبی کریمؐ کا ذکر ہے۔سرکارِ کائناتؐ اِرشادِ مبارک فرماتے ہیں: ’’اﷲ تعالیٰ اُس سے محبت کرے جو حضرت اِمام حسینؓ سے محبت کرے۔
اِمام حسینؓ اَسباط میں سے ایک سبط ہیں‘‘۔ (ترمذی جلد۲ص۸۱۲ حدیث نمبر۵۷۷۳)اَسباط سبط کی جمع ہے۔ سبط سے مراد وہ درخت ہے جس کی جڑ ایک ہو اور شاخیں بہت۔ یعنی جیسے حضرت یعقوبؑ کے بیٹے اَسباط کہلاتے تھے کہ اُن سے حضرت یعقوبؑ کی نسل شریف بہت چلی ہے۔ ربِّ کریم غفور و رحیم فرماتا ہے۔ ’’اور ہم نے اُنہیں بانٹ دیا بارہ قبیلے گروہ گروہ‘‘۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ایسے ہی میرے (نواسے) حسینؓ سے میری نسل چلے گی اور اِن کی اَولاد سے مشرق و مغرب بھریں گے۔
حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا‘ ’’جسے پسند ہو کہ جنتی جوانوں کے سردارکو دیکھے تو وہ حسین بن علیؓ کو دیکھے‘‘۔ (نورالابصار ص۴۱۱)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریمؐ مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا: چھوٹا بچہ کہاں ہے؟ اِمام حسینؓ دوڑتے ہوئے آئے اور حضور نبی کریمؐ کی گود مبارک میں بیٹھ گئے اور اپنی اُنگلیاں آپؐ کی نورانی داڑھی مبارک میں داخل کر دیں۔ حضور نبی کریمؐ نے اُن کا بوسہ لیا پھر فرمایا: ’’اے اللہ (جَلَّ جلالک)! میں اِس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اِس سے محبت فرما اور اُس سے بھی محبت فرما جو اِس سے محبت کرے‘‘۔ (مستدرک حاکم جلد ۳ص ۵۹۱ حدیث نمبر۳۲۸۴‘ مختصراً) حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے رسول کریم ؐ کا فرمان ہے کہ اِمام حسنؓ اور اِمام حسینؓ دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں جو مجھے عطا ہوئے ہیں۔ ( بخاری ،فتح الباری )فرمانِ نبویؐ کا مطلب ہے کہ اِمام حسنؓ اور اِمام حسینؓ جنت کے دو پھول ہیں جو مجھے عطا ہوئے ہیں۔ اِن کے جسموں سے جنت کی خوشبو آتی ہے۔ اِس لئے رسولِ کریمؐ اُنہیں سونگھا کرتے تھے۔ حضور نبی کریمؐ امیر المؤمنین علی المرتضیٰؓ سے فرماتے ’’اے دو پھولوں کے باپ تم پر سلام ہو‘‘۔
معلوم ہوا کہ حضور آقائے کائناتؐ نے صرف دُنیا والوں ہی سے نہیں چاہا کہ وہ اِمام حسینؓ سے محبت کریں بلکہ رَب تبارک و تعالیٰ سے بھی عرض کیا کہ تو بھی اِس سے محبت فرما اور یہ بھی عرض کیا کہ اِمام حسینؓ سے محبت کرنے والے سے بھی محبت فرما۔اِمام حسینؓ نے پیدل چل کر پچیس حج کئے‘ آپ بڑی فضیلت کے مالک تھے اور کثرت سے نماز‘ زکوٰۃ‘ حج‘ صدقہ اور دیگر امور ِخیر اَدا فرماتے تھے۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق اعظمؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ ایک روز میں حضور نبی کریمؐ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا تو میں نے دیکھا کہ حضور نبی کریمؐ نے اِمام حسینؓ کو اپنی پشت پر بٹھا رکھا ہے اور ایک رسی اپنے نورانی منہ مبارک میں ڈال رکھی ہے (اور اِمام حسینؓ نے ایسے پکڑ رکھی ہے جیسے لگام) اُس کے دونوں سرے اِمام حسینؓ کو تھما رکھے ہیں اور وہ حضور نبی کریمؐ کو چلا رہے ہیں اور نبی کریمؐ اپنے گھٹنوں کے بل چل رہے ہیں۔ (امیرالمؤمنین حضرت سیّدنا فاروق اعظمؓ فرماتے ہیں) جب میں نے یہ منظر دیکھا تو میں نے کہا: (اے حسینؓ آپ کی سواری بہت ہی اچھی ہے تو آپؐ نے یہ سن کر فرمایا: ’’اے عمرؓ سوار بھی تو بہت اچھا ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ ص۱۷۵) حضرت اُسامہ بن زیدؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ ایک رات میں کسی حاجت کی غرض سے نبی کریمؐ کی خدمت ِاَقدس میں حاضر ہوا تو نبی کریمؐ اِس طرح باہر تشریف لائے کہ آپؐ نے (چادر کے نیچے) گود میں کچھ لیا ہوا تھا مجھے خبر نہ تھی کہ وہ کیا ہے؟ جب میری حاجت روائی ہو گئی تو میں نے عرض کیا‘ آپؐ کی گود شریف میں (چادر کے نیچے) کیا ہے؟ تو آپؐ نے اُسے کھولاتو’’ اِمام حسنؓ اور اِمام حسینؓ آپؐ کی رانوں پر تھے۔ فرمایا یہ میرے دونوں بیٹے‘ میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔ اے میرے اللہ میں اِن دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی اِن سے محبت فرما اور جو اِن سے محبت کرے تو اُس سے بھی محبت فرما‘‘۔ (مشکوٰۃ ص۰۷۵ حدیث نمبر ۵۶۱۶)

مزیدخبریں