کالا باغ ڈیم کا کا ذکر منشوروں سے غائب
مکرمی!11 مئی چھوٹی قیامت کی طرح قریب آتا جارہا ہے گھڑیال منادی دئیے جا رہا ہے کہ سابقہ نامہ اعمال پوری سچائی کے ساتھ سامنے لاﺅ۔ جرم کئے ہیں، غلطیاں کی ہیں تو صاف صاف اقرار کرو۔ آئندہ کے لئے جو کرنا ہے اللہ کو حاضرناظر جان کو منشور کی شکل میں سچے وعدے کرو مگر ایک آدھ کو چھوڑ کر سب جھوٹ بولے جارہے ہیں۔ خلقت ٹوٹ رہی ہے۔ آنکھوں کے دیئے ٹمٹا رہے ہیں مگر لیڈران کرام اپنی پرانی ڈگر پر، پرانے حربوں کے ساتھ جمہوری سسٹم کو بچانے کے اس نادر موقع کی پروا نہیں کررہے۔ اللہ کے بندے نے کہا ہے کہ قیامت میں وہ کام آئے گا جو پیچھے چھوڑ جاﺅ گے۔ بے لذت پکوان تیار کرنے والا باروچی کبھی اپنی انگلیاں نہیں چاٹتا۔ وہ سیاستدان یقیناً گھبرائے ہوئے ہیں جنہوں نے اقتدار کے آخری لمحات میں بھی اپنے فائدے کا سوچا۔ یہ نہ سوچا کہ عوام کے، غریب اور دردوں کے مارے عوام کے ٹیکسوں اور باہر کے ادھار سے جمع ہونے والے خزانے پر کتنا بوجھ پڑے گا۔ چھوٹی قیامت کے لئے تیاریوں کا منظرنامہ اور بھی خوفناک ہے۔ بڑی پارٹیوں نے ٹکٹ کے خواہشمندوں سے فی کس لاکھوں سے کروڑوں روپے تک وصول کئے ہیں تو جیتنے والا چھوٹے بڑے ایوان میں پہنچتے ہی پہلے کیا سوچے گا؟ اپنے کروڑوں کے اخراجات کی وصولی، یہ وصولی کا طریقہ اب عوام اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہی باتوں سے جمہوری نظام کے خلاف عمومی نفرت پیدا ہورہی ہے۔ اس کمزوری نے یہ تاثر عام کیا ہے کہ سیاست عوام کی خدمت نہیں اپنی اپنی تجوریوں کو بھرنے کا نام ہے۔ انہی باتوں سے ادارے مستحکم نہیں ہوپائے۔ قانون شکنوں کو معاشرے میں پاﺅں جمانے کا موقع ملا۔ اب اقتدار اور اقتدار سے باہر ہو کر کسی کو پروٹوکول، سکیورٹی اور خوف کا سامنا ہے۔ رہی اصل مسائل کے حل کی بات تو صرف ایک مسئلہ جو اس وقت تمام مسائل کی ماں ہے یعنی بجلی اور پانی۔ تو کسی پارٹی کے منشور میں (الا ماشاءاللہ) اس کے حل کے لئے اصل اور ٹھوس پلان کا ذکر نہیں۔ عمران خان جلسوں میں کالا باغ ڈیم بنانے کا اعلان کیا مگر منشور جو اصل دستاویز ہے۔ اس میں کالاباغ ڈیم کا ذکر گول کردیا۔ پیپلز پارٹی، ن لیگ نہ جانے کیوں کالا باغ ڈیم کے لئے منشور کی حد تک خاموش ہیں۔ عجیب لگا کہ سابق صدر پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ کے منشور میں کالا باغ ڈیم کا وعدہ کیا گیا مگر انتخابات میں ان کا گراف کیا ہوگا؟ ان کے کاغذات تمام حلقوں سے مسترد ہو چکے ہیں اور خود گرفتار ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ شیر اور تیر کے نشان والی بڑی پارٹیوں کے دلیر لیڈر، اسفندیار اور پلیجو جیسی کمزور شخصیات کے بیانات سے ڈر کر کالا باغ ڈیم کے لئے میدان میں نہیں اتررہے۔(یاسر امرتسری، لاہور)