جیسا کرو گے ویسا بھرو گے
مکرمی! اگر ہم بیرونی قرضے اور امداد ایمانداری سے استعمال کریں، غیر ملکی سودوں میں ملکی مفاد کا خیال رکھیں تو لامحالہ ملک عزیز مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جائے گا۔ برعکس کی صورت برعکس ہو گا بلکہ ہو چکا ہے۔ 1-4-13 کے نوائے وقت میں منور حسن کہہ رہے ہیں کہ حکمرانوں کو ووٹ نہ دو یہ کرپشن کے دلدادہ ہیں اور مولوی ڈیزل کہہ رہے ہیں کہ گیس ملک میں وافر ہے صرف سودے میں کمیشن کیلئے ایران سے گیس ڈیل ہوئی ہے۔ فکر ہرکس بقدر ہمت اوست کے مصداق۔ ایک واقف حال نے ایک بار بتایا کہ انڈیا میں بیرونی بزنس وفد جاتا ہے تو ائر پورٹ پر انہیں لینے جائنٹ سیکرٹری لیول کا افسر جاتا ہے، پروفیشلز کی مضبوط ٹیم انکی بزنس آفر کی ٹیکنیکل اور فنانشنل چھان بین کرتی ہے اورصاف ستھرا نتیجہ وزارت اور سیاست کو جاتا ہے۔ سیاستدانوں کو دینے کا بچتا ہی نہیں نتیجہ بھی ظاہر ہے کہ انڈیا مضبوط ہے۔ اسکے برعکس پاکستان آنے والوں ٹین پرسنٹ لوگ (وزراءسے کم نہیں) ائیر پورٹ جاتے ہیں اپنا کمیشن لینے کے بعد وہ پروفیشنلز کے حوالے ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں پروفیشنلز بھی بددلی سے ہی کچھ کریں گے۔ ملک کا حال عین اس کا مظہر ہے۔ مزید یہ کہ سیاستدان ٹین پر سنٹ والا کام شیرِ مادر سمجھ کر کرتے ہیں۔ احتساب والے کام میں سیاستدانوں سے نہایت ادب سے پیش آتے ہیں کہ امین فہیم سے 300 کروڑ واپس لئے جا چکے ہیں، سزا معاف سمجھی جائے (وسیم سجاد)۔ سپریم کورٹ کو خیر ہو کہ پیسے کی واپسی تک ہی کیس بند نہیں کیا۔ ونسٹن چرچل کی دوسری جنگ عظیم میں یہ بات اب سمجھ آتی ہے کہ عدالتیں ٹھیک کام کر رہی ہیں تو انگلینڈ کو شکست نہیں ہو سکتی۔ When Character is lost eveything is lost بھی اب سمجھ آ رہا ہے اس الیکشن میں ملک بچانے کا چارا کیا جائے۔(معین الحق ماڈل ٹاﺅن لاہور)