شاہد خاقان عباسی اور مصطفی نواز کھوکھر نئی سیاسی جماعت بنانے پر غور
اب معلوم نہیں یہ اتفاق ہے غور ہے یا یا کچھ اور۔ کیونکہ اس وقت درجنوں سیاسی جماعتیں میدان سیاست میں موجود ہیں۔ کئی تو تانگہ پارٹیاں ہیں کئی ون مین شو ہیں۔ لے دے کر آٹھ یا دس جماعتیں ایسی ہیں جنہیں سیاسی جماعت کہا جا سکتا ہے۔ اگرہمارے ہاں ووٹ کے تناسب سے جماعت کا سٹیٹس طے کیا جائے تو واقعی بیشتر جماعتیں ختم ہو سکتی ہیں۔ مگر کیا کریں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اب شاہد خاقان عباسی اور مصطفی نواز کھوکھر اپنی اپنی جماعتوں سے ناراض ہیں یا اپنے قائدین اور ان کی پالیسیوں سے اس لئے وہ کھل کر اب اپنی جماعتوں سے بےزاریت کا اظہار کر رہے ہیں۔ وجہ جو بھی ہو وہی جانتے ہوں گے مگر عوام دیکھ رہے ہیں کہ یہ نئی سیاسی جماعتوں کی پیدائش کا سیزن ہے یکے بعد دیگرے کئی نئی سیاسی جماعتوں اور دھڑوں کی ولادت ہو چکی ہے۔ اب مزید کی بھی گنجائش نکل سکتی ہے۔ تو پھر ایک اور نئی جماعت کے قیام سے کونسی قیامت آ جائے گی اور وہ کہتے ہیں ناں اکیلاچنابھاڑ نہیں پھوڑ سکتالوگ مبارکباد دینے کے انتظار میں ہیں کب نئی جماعت ظہور میں آتی ہے اور دیکھنا ہے کہ کون کون اس میں شامل یا موجود ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں جماعتوں کے منشور سے زیادہ ان کی رہنماﺅں کو دیکھا جاتا ہے۔ تو اب بھی یہی ہوگا۔ اس بار سب سے زیادہ ولادتیں پی ٹی آئی کے بطن سے ہوئی ہیں۔ اب مسلم لیگ نون سے دیکھتے ہیں کیا تولد ہوتا ہے۔ ابھی تک پیپلز پارٹی محفوظ ہے شایداس نے برتھ کنٹرول پروگرام اپنا ہے ویسے بھی سندھ کی حد تک اسے کسی نئی ولادت کی فکرنہیں ہے۔ باقی جو بھاگ کر اپنی مرضی کی پسند کی جماعت اپنا لے۔ اس کی پیپلز پارٹی والے پرواہ نہیں کرتے۔ ویسے بھی یہ نئی جماعتیں صرف بلیک میلنگ کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ انہوں نے کونسا اکثریت سے الیکشن جیتنا ہوتا ہے۔ ان کے سربراہ ہی جیت جائیں تو غنیمت ہے۔
جہاں خواتین کو ہراساں کیا جائے گا وہاں کے ایس ایچ او کو ہٹا دوں گا، وزیر داخلہ سندھ
اگر واقعی ایسا ہونے لگے تو یقین کریں کسی بڑے سے بڑے پھنے خان، شاہ یا وڈیرے کی جرا¿ت نہیں ہوگی کہ وہ کوئی الٹی سیدھی حرکت کرے۔ اسی طرح اوباش اور لوفر لوگ اور لونڈوں لپاڑوں کی بھی ہمت نہ ہوگی کہ وہ کسی راہ چلتی خاتون سے چھیڑ خانی کر سکے۔ یکے بعد دیگرے سندھ کے بڑے سماجی و سیاسی گھرانوں میں جنہیں مذہبی تقدس بھی حاصل ہے۔ جس طرح کم عمر بچیوں کے ساتھ مظالم کی داستانیں سامنے آئی ہیں۔ یہ صرف مشت ازخرمے نمونہ ہیں۔ ایسی سینکڑوں داستانیں زبان تک آنے سے قبل ہی خاموش کر دی جاتی ہیں۔ مزارعوں، غریبوں ، کمی اور آباد گاروں میں تو حوصلہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ان آبائی آقاﺅں یا دیہی خداﺅں کے خلاف آواز بلند کرسکیں۔ وہ تو اپنی نوجوان اور کمر عمر بچیوں اور بچوں کی نعشیں اٹھا کر اپنے خدا سے فریاد کرتے ہوئے اس امید پر چپکے سے دفنا دیتے ہیں کہ اس کاانصاف روز قیامت کوکرے گا۔ ادھ کچلی مسلی ہوئی کلیاں تو کفن سے بھی محتاج یونہی کسی دریا میں نہر میں کسی اندھے کنویں میں ٹکڑے کرکے پھینک دی جاتی ہیں۔ جن کا نوحہ پڑھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ اب وزیر داخلہ سندھ صرف بیان دے کر آرا م سے نہ بیٹھیں ازخود ان سارے حالات کی کڑی نگرانی کریں۔ عام طور پر یہ مظالم پولیس کی طرف سے خاموشی اور ان کی رضا مندی سے ہی ہوتے ہیں کیونکہ علاقہ پولیس ان شاہوں، وڈیروں اور نوابوں سے ملی ہوتی ہے جو اس ظلم کی پردہ پوشی کرتے ہیں اور ظالموں کی حمایت میں مظلوموں کوڈرا دھمکا کر پرچے کرنے سے باز رکھتے ہیں۔ سندھ میں اغوا ‘کارو کاری، تہمت وٹہ سٹہ کی بیماریاں عام ہیں۔ اسی طرح شہروں میں بازاروں میں بھی سکول، کالج کی طالبات کا گھر سے نکلنا محال ہے۔ بدباطن لوگ قدم قدم پر انہیں ہراساں کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کو بھی اب ذرا اس کامزہ چکھایا جائے تو انہیں بھی قرار آئے ....
چیئرمین سینٹ کے بھائی کو کس قانون کے تحت سرکاری گھر دیا گیا: اسلام آبا د ہائیکورٹ
اب یہ تو معلوم نہیں انہیں کس قانون کے تحت یہ گھر الاٹ کیا گیا۔ ہاں البتہ اب گزشتہ سالوں کا کرایہ ان سے کسی بھی قانون کے تحت وصول کیا جائے تو بہتر ہے۔ کیونکہ یہ ضرور معلوم ہے کہ موصوف گزشتہ ایک دہائی سے وہاں مفت میں رہ رہے تھے۔ یہ کوئی عام سرکاری کالونی نہیں‘ اسلام آباد کا مہنگا ترین علاقہ ہے۔ یہاں اعلیٰ سرکاری افسران ہی رہتے ہیں۔ اب رزاق سنجرانی کی عالم جوانی میں ہی 2008ءمیں ایک بڑی کمپنی کے سربراہی عطا کی گئی جو ظاہر ہے میرٹ سے ہٹ کر ہوگی کیونکہ جس کمپنی میں انہیں تعینات کیا گیا‘ اس کے حوالے سے تو ان کے پاس تعلیمی ڈگری بھی نہیں تھی۔ مگر حقوق بلوچستان کے نام پر 3 سال کا کنٹریکٹ ملا۔ پھر شاید قسمت نے یاوری کی یا کوئی سفارش کام آئی وہ اسلام آباد میں اس عالی شان سرکاری گھر کے مہمان بنے اور 3 سال بعد جب کنٹریکٹ ختم ہوا تو بنا نئی تقرری کے کسی ضابطہ یا قانون کے ابھی تک اسی گھر میں رہ رہے ہیں اسے خالی نہیں کیا۔ جب یہ معاملہ عدالت میں آیا تو سب کو ہوش آیا کہ چیئرمین سینٹ کا بھائی کیا کر رہا ہے۔ اب چیئرمین سینٹ کہہ سکتے ہیں انہیں کیا معلوم ان کا بھائی کہاں رہتا ہے۔ کیا کرتا ہے اسے کس نے بھرتی کیا اور گھر الاٹ کیا۔ مگر سب اندھے نہیں‘ خاص طورپر اتنے طویل عرصہ میں کیا انہیں کبھی خیال نہیں آیا کہ وہ ذرا اپنے بھائی سے ہی مل کر پوچھ لیں کہ کیا کر رہے ہو‘ کہاں رہ رہے ہو۔اطلاعات کے مطابق اب رزاق سنجرانی اپنا دامن چھڑانے کی کوشش کر رہے ہیں۔سرکاری گھر خالی کرنے پر پھر بھی آمادہ ہیں مگر عدالت میں کیس چلنے کی وجہ سے اس گھر کی مثال اس ریچھ کی سی ہو گئی ہے جسے دریا میں بہتا دیکھ کر ایک احمق نے کمبل سمجھ لیا اور نکالنے کیلئے دریا میں کودا تو ریچھ اس سے لپٹ گیا۔ یوں اسے ڈوبتا دیکھ کر لوگ چیخے کہ کمبل کو چھوڑ دو باہر آﺅ تو وہ بولا میں تو چھوڑ رہا ہوں۔ پر کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہا تو صاحبو! اب ایسا ہی کچھ رزاق سنجرانی کے ساتھ ہو رہا ہے۔
لوگ خود محبت کی شادیاں کر لیتے ہیں‘ مسائل عدالت کیلئے بن جاتے ہیں: چیف جسٹس فائز عیسیٰ
یہ المیہ تو ہمارے کچھ گھروں میں ضرور ہے کہ من پسند شادی کے نام پرلڑکا یا لڑکی اپنی آنکھوں میںہزاروں سپنے سجائے اپنی نئی دنیا بسانے نکل پڑتے ہیں۔ عام طورپر پسند کی شادیاں والدین یا خاندانوں کی مرضی کے بغیر ہوتی ہیں۔ اس لئے یہ شادی انجام پانے سے پہلے ہی تنازعات کی زد میں آتی ہیں اور ان کی راہ میں سب رکاوٹ بن جاتے ہیں اس کے باوجود اگر یہ شادی انجام پاتی ہے تو اسے لوگ خانہ آبادی سے زیادہ خانہ بربادی کی بددعائیں دیتے ہیں۔ کئی جوڑے شادی سے قبل محبت کی راہوں میں مارے جاتے ہیں۔کچھ بھاگ کر کسی دوسرے شہر میں پناہ لیتے ہیں۔ وہاں بھی قضاان کے تعاقب میں رہتی ہے۔ جو اپنے ہی گھر یا شہر میں آبا دہوتے ہیں‘ وہ بھی بہت کم آخیر تک ساتھ نبھانے کی باتیں اور وعدے پورا کرتے ہیں۔ اکثریت بعدازاں جب عشق کا بھوت سر سے اترتا ہے گود میں دو تین ننھے منے بچے ہوتے ہیں۔ گردش حالات اور تلخی ایام کا رونا روتے معاشی و مالی بدحالی اور مارپیٹ کے نام پر عدالتوں میں دوڑے چلے آتے ہیں۔ بات علیحدگی تک جا پہنچتی ہے۔ اس وقت فیملی عدالتوں میں سب سے زیادہ طلاق اور خلع کے کیس آرہے ہیں اور ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اب تو چیف جسٹس کو بھی کہنا پڑاہے کہ لوگ خود تو محبت کی شادیاں کر لیتے ہیں بعد میں مسائل عدالت کیلئے کھڑا کر دیتے ہیں۔ واقعی اس طرح عدالتوں پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ کوئی ایک کیس ہو بات کی جائے یہاں نان و نفقہ‘ بچوں کی حوالگی کے موقع پر تو ایسے ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اگر اس کا نام محبت ہے تو بھاڑ میں جائے ایسی محبت جس کا خمار چند دن میں اتر جاتا ہے۔ تو عام مسائل بھی پہاڑ معلوم ہوتے ہیں۔ شادی سے پہلے لیلیٰ کو نظر نہیںآ تا کہ مجنوں صاحب بے کار ہے۔ ان کے پلے تو ایک کوڑی بھی نہیں۔ وہ لیلیٰ کے ناز و نخرے کہاں سے اٹھاتے پھریں گے۔احمق مجنوں بھی روٹی خرید نہیں سکتے‘ تارے توڑ کر لانے کے دعوے کرتے پھرتے ہیں۔