
صوبہ بلوچستان کاذکر آتے ہی پاکستانیوں کو بھارت کی طرف سے لگنے والے بہت سے گھاﺅ تازہ ہو جاتے ہیں ۔بھارت کا سرکاری دہشت گردآج بھی پاکستان کی قید میں ہے جو اپنی حکومت کے حکم پر بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے اور اپنے مقصد کو بروئے کار لانے کے لیے دہشت گردی کا ہدف لے کر پاکستان کی حدود میں داخل ہوا اور رنگے ہاتھوں پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے ہتھے چڑھ گیا جو عرصہ دراز سے اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے تھے اور منتظر تھے کہ وہ کب بلوچستان آتاہے۔ کلبھوشن یادیو نے گرفتاری کے بعد اقرار کیا کہ وہ اپنے دہشت گردی کے نیٹ ورک کو بلوچستان سے آگے سندھ تک پھیلا چکا ہے۔ اس نے دہشت گردی کے بہت سے ایسے واقعات کو تسلیم کیا جس میں سینکڑوں بے گناہ اور معصوم پاکستانی لقمہ اجل بن گئے۔ کلبھوشن یادیو پکڑا گیا لیکن اس کے بعد بھی بلوچستان میں سول آبادیوں میں بم دھماکوں ‘ پاک فوج کی چوکیوں اور قافلوں پر حملوں کا سلسلہ مکمل طور پر ختم نہ ہوسکا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے خلاف بھارت اپنے مذموم ایجنڈے پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔لیکن افسوس دہشت گردی کے ان ختم نہ ہونے والے واقعات کے باوجود عالمی برادری نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی ۔جس سے شہہ پا کر بھارتی حکمرانوں نے سات سمندر پار کینیڈا تک دہشت گردی کے اپنے طریقہ کار کو پھیلاتے ہوئے وہاں خالصتان تحریک کے لیڈران کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔جبکہ پاکستان کے برعکس کینیڈا کے سکھ شہریوں کے احتجاج کے بعد کینیڈا کی سرکار کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ اپنے شہریوں کے قتل پر خاموشی اختیار کرے۔
کینیڈا کی حکومت نے تحقیقات کے نتائج پر امریکہ‘ برطانیہ‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو اعتماد میں لیتے ہوئے انہیں حقائق سے آگاہ کیا جس کے مطابق کینیڈا میں تعینات ایک سفارت کارکو کینڈین شہری پردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث پایا گیا ۔ اس بھارتی سفارت کار کی شناخت بھارتی خفیہ ادارے را کے کینیڈا میں اسٹیشن چیف کے طور پر ہوئی۔ اسے کینیڈا بدر کردیا گیا لیکن پردیپ سنگھ نجر کے بہمانہ قتل کی تحقیقات کرنے والے پانچوں ممالک تاحال پاکستان میں کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور اس کی وجوہات پر خاموش ہیںاور نہ ہی بلوچستان میں بھارتی خفیہ ادارے را کی کارروائیوں بارے بات کرنا ضروری سمجھا گیا ہے۔اگر پانچوں ممالک اپنی تحقیقات کو صرف کینیڈا میں را کے ہاتھوں ہونےو الے قتل تک محدود رکھنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں اپنی تحقیقات کا دائرہ کار بلوچستان سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی بیٹی کریمہ بلوچ کے قتل تک بڑھانا چاہے۔ جسے 22 دسمبر 2020 ءکو کینیڈا کے شہر اونتاءیو میں قتل کرکے اس کی لاش اونتاریو جھیل کے کنارے پھینک دی گئی۔ بلوچستان میں کریمہ بلوچ اس وقت منظرِ عام پر آئی جب 2006میں اُسے بلوچ سٹوڈنٹس آگنائزیشن کی چیئرپرسن کے طور پر منتخب کیا گیا ۔2015 ءمیں اچانک لاپتہ ہوگئی۔ اس کی گمشدگی پربلوچ علیحدگی پسندوںنے پاک فوج کو ملوث قرار دے کر پاکستان کے خلاف بھر پور پروپیگنڈہ مہم چلائی اور برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے بھی اس کی گمشدگی کو اپنی رپورٹ کا حصہ بنایا۔ اس رپورٹ کو بنیاد بناکر بھارتی حکمران اور میڈیا ، پاکستان کو بدنا م کرنے کیلئے کئی روز تک بیان بازی اور تبصرے کرتے رہے۔
ایک سال بعد 2016میں کریمہ بلوچ کی کینیڈا میں موجودگی کی خبرآئی جسے کینیڈا سرکار نے سیاسی پناہ دے رکھی تھی۔ 15 اگست 2016 کوبھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے یوم آزادی پر اپنی تقریر میں کریمہ بلوچ کا خاص طو ر پرذکر کرتے ہوئے پاکستان کو دھمکی دی کہ ”بھارت بلوچستان میں بلوچوں کے حقوق پر پاک چین ، تجارتی راہداری منصوبے (سی پیک)کے نام پرمارے گئے ڈاکے کو کسی صورت قبول نہیں کرے گااورہم روکنے کیلئے کسی بھی حدتک جائیں گے“۔ 2018میں اسے جنیوا میں انسانی حقوق کمیشن کو نسل میں تقریر کیلئے خاص طور پر مدعو کیاگیا ۔اس دعوت میں میں بھارتی خفیہ ادارے را کا خصوصی تعاون شامل تھا۔ جنیوا میںاپنے خطاب کے دوران کریمہ بلوچ نے بلوچستان میں پس ماندگی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتے ہوئے بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی کو ناگزیر قرار دیا اور پھر 22 دسمبر 2020کوخبر آئی کہ کریمہ بلوچ کو کینیڈا میںقتل کر دیا گیا ہے ۔اس خبر کی آڑ میںبھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کا منہ کھول دیا ۔ مگر اب کینیڈا میں خالصتان تحریک کے لیڈرکینیڈین سکھ شہری کے قتل میں بھارتی را کے ملوث ہونے کی تصدیق کے بعد یقین سے کہاجاسکتا ہے کہ کینیڈا میں کریمہ بلوچ کے قتل میں بھی بھارت ہی ملوث رہا ہوگا تاکہ پاکستان کو بدنام کیا جاسکے۔
کاش ا س وقت کریمہ بلوچ زندہ ہوتی تو اسے معلوم ہوتا کہ صوبہ بلوچستان میں آج کا نوجوان پاکستان دشمن پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر بندوق اٹھا کر پہاڑوں پر منتقل ہونے کی بجائے تعلیم کے ذریعے اپنا آپ منوانے میں مصروف ہے۔ اس کی بڑی مثال ریکو ڈک مائنگ کمپنی بیرک گو لڈکی طرف سے انٹرنیشنل گریجوایٹ پروگرام کیلئے بلوچستان یونیورسٹی سے 9طلباءکا انتخاب ہے۔ ان طلباءکو بیرک گولڈ کی جانب سے 2سالہ گریجویٹ پروگرام کے تحت ایکسپرٹ اور لیڈ ر شپ پوزیشن کیلئے منتخب کیا گیا ہے۔ یوں بلوچ طلباءاپنے صوبے کے وسائل کی ازخود نگرانی کے قابل ہوجائیں گے ۔ اس انتخاب کے بعد یقینی طور پر دیگر بلوچ طالب علموں کیلئے بھی بلوچستان میں کام کرنے والے عالمی تعمیراتی اداروں میں ملازمت کے حصول کی راہ ہموار ہوگی اور ان کیلئے ترقی کی نئی راہیں کھلیں گیں۔