
دیکھیں میں نے تو کئی ماہ پہلے ہی لکھا تھا کہ نئی سیاسی جماعت بنے گی میں یہ اس وقت سے لکھ رہا ہوں جب لوگ اس خیال کا مذاق بناتے تھے چونکہ اس وقت پی ٹی آئی کا عروج تھا سب راستے سب قافلے سب بیانات سب خیالات سب اجتماعات کا مرکز پاکستان تحریک انصاف تھا۔ ان حالات میں کسی نئی سیاسی جماعت کا خیال یقینا لوگوں کو اچھا نہیں لگنا تھا لیکن پھر دیکھا گیا کہ استحکام پاکستان پارٹی کی شکل میں ایک نئی سیاسی جماعت قائم ہوئی لیکن اب بھی ایک اور نئی سیاسی جماعت کی جگہ بہرحال موجود ہے اور یہ نئی سیاسی جماعت مختلف سیاسی جماعتوں کے نمایاں لوگوں پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ دیکھیں ممکنہ طور پر اس سیاسی جماعت میں وہ تمام تعمیری لوگ ہو سکتے ہیں جو دہائیوں سے مختلف سیاسی جماعتوں کا حصہ ہیں لیکن اب روایتی سیاست اور روزانہ کی بے معنی سیاسی گفتگو سے اکتا چکے ہیں۔ یہ ان لوگوں کا قبیلہ ہے جو مختلف شعبوں میں تجربہ رکھتے ہیں اور غیر سرکاری طور پر تجارتی و کاروباری شعبوں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں، ان میں زرعی شعبے کے کامیاب لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ یقینا ان میں وہ لوگ ہوں گے جو اپنی اپنی جماعتوں میں رہتے ہوئے مصلحت پسندی سے ہوتے فیصلوں کو دیکھتے آئے ہیں اور اب یہ سوچتے ہیں کہ ملک کو اس سے بہتر فیصلوں اور مختلف معاملات میں بے رحمانہ اور انقلابی فیصلوں کی ضرورت ہے۔ ملکی معیشت کو مضبوط بنانے اور تاریکیوں کو روشنیوں میں بدلنے کے لیے سیاسی مصلحتوں اور ووٹ کی قید سے آزاد ہونا ضروری ہے۔ یہاں ووٹ کی قید سے مراد یہ ہے کہ ملکی بہتری کے لیے فیصلہ کرتے ہوئے اراکین اسمبلی رکاوٹ نہ بننے پائیں۔ چونکہ جمہوریت کو بہترین انتقام کہا جاتا ہے اس لیے ہمارے اراکین اسمبلی انتقام تو لیتے ہیں لیکن غریب پاکستانیوں سے، وسائل سے محروم افراد سے، غریبوں سے، بے روزگاروں سے، پسے ہوئے طبقے سے انتقام لیتے لیتے آج یہ دن آن پہنچا ہے کہ ایک لیٹر پیٹرول خریدنا بس سے باہر ہو چکا ہے، دو وقت کی روٹی پوری کرنا بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ یہ سارا کیا دھرا انہی سیاسی جماعتوں کا ہے۔ اب استحکام پاکستان پارٹی سامنے آئی ہے ۔ اس میں اچھے لوگ موجود ہیں ۔ ملکی ترقی اور مسائل حل کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ یہاں کاروباری، سیاسی اور سماجی طور پر کامیاب افراد نظر آتے ہیں اگر انہیں موقع ملتا ہے تو یہ بہتر کر سکتے ہیں۔ ملک کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے سیاسی وابستگی اور مصلحت سے آزاد ہونا پڑے گا۔ استحکام پاکستان پارٹی اور نئی آنے والی جماعت کو بھی ہر وقت یہ ذہن میں رکھنا ہو گا۔ اگر نگراں حکومت بجلی چوروں، گیس چوری کرنے والوں، امریکی ڈالرز ذخیرہ کرنے والوں، چینی ذخیرہ کرنے والوں اور سمگلرز کےخلاف کارروائی کر سکتی ہے تو پھر منتخب حکومت کے پاس تو اس سے کہیں بڑھ کر اختیارات ہوتے ہیں۔ اس لیے ملکی بہتری کے لیے کسی بھی نئی جماعت کو خوش آمدید کہنا ہو گا۔ جیسا کہ چند روز قبل شاہد خاقان عباسی نے بھی کہا ہے کہ نئی سیاسی جماعت کی جگہ بھی اور ضرورت بھی محسوس ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے مصطفی نواز کھوکھر نے بھی نئی سیاسی جماعت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا اور اب سابق ویر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی اسی موضوع پر بولے ہیں۔
مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ " اِس وقت ملک میں نئی جماعت کی گنجائش موجود ہے۔ پہلے سے موجود سیاسی جماعتیں ڈلیور نہ کر پائیں۔ پہلے میں نے اور پھر شہباز شریف نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا اسحاق ڈار نے میرے خلاف ٹی وی پروگرامز کروائے کیونکہ انہیں وزیر بننے کا جنون تھا۔ وہ میرے کالمز اور ٹی وی پرو گرامز میں کی گئی گفتگو پر نواز شریف کو شکایتیں لگاتے تھے۔"
مفتاح اسماعیل کا نئی سیاسی جماعت کے حوالے سے بیان تو پاکستان کی ضرورت کے عین مطابق ہے۔ دوسرا جو انہوں نے اسحاق ڈار کے حوالے سے گفتگو کی ہے یہ بھی پہلے سے موجود سیاسی جماعتوں کا بہت بڑا مسئلہ یے۔ یہاں متبادل قیادت تیار کرنے کو ترجیح نہیں دی جاتی۔ بار بار پرانے لوگوں کو سامنے لایا جاتا ہے۔ جو لوگ قیادت کے زیادہ قریب ہوتے ہیں انہیں ذاتی حیثیت میں اس کا فائدہ ضرور ہوتا ہے۔ اگر مفتاح اسماعیل بھی وزیر خزانہ رہتے اسحاق ڈار شکایتیں لگاتے لگاتے ایک مرتبہ پھر اس عہدے پر نہ پہنچتے تو کیا قیامت آ جاتی۔ یہی وہ رویئے ہیں جو لوگوں کو بدظن کرتے ہیں۔ یہی وہ فیصلے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں کس حد تک مصلحت کا شکار ہو سکتی ہیں۔ اگر اسحاق ڈار شکایتیں لگا لگا کر وزارت خزانہ حاصل کر سکتے ہیں تو دوبارہ بھی یہ کام کر سکتے ہیں اور ان کی باتیں ماننے والے دوبارہ بھی ایسا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اس لئے ملک کے بہتر مستقبل کی خاطر ایسے تمام لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونا چاہیے۔ تاکہ روایتی سیاست اور ووٹ کی خاطر ملک کو تباہ کرنے کا سلسلہ ختم ہو سکے۔ میں استحکام پاکستان پارٹی سے بھی ایسے ہی فیصلوں کی توقع کرتا ہوں۔ ملک کو خودمختار بنانے اور بالخصوص امپورٹ ایکسپورٹ اور توانائی بحران سے نمٹنے کےلئے سب سے بہتر سوچ والوں کو آگے آنا چاہیے۔ اسی طرح ممکنہ طور پر پانی کے بحران سے بچنے کےلئے بھی ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ سیاسی مصلحتوں میں جکڑا کوئی بھی سیاست دان اب کوئی تبدیلی نہیں لا سکتا نہ ہی تعلقات کو اہمیت دینے والا کوئی بھی حکمران مشکل فیصلے کر سکتا ہے۔ اب وہی شخص مشکلات سے نکال سکتا ہے جس کی نظر میں سب سے پہلے پاکستان ہو۔ اس سلسلے میں اگر کچھ لوگ فوری طور پر کسی ایک اور سیاسی جماعت قائم کرنے میں ناکام بھی ہوتے ہیں تو مستقبل میں ایسی کوششیں دوبارہ ہوں گی۔ کیونکہ اس فرسودہ نظام اور روایتی سوچ کو بدلنے کے دعووں، وعدوں اور بیانات سے زیادہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے اور عملی اقدامات کےلئے نئے راستوں کو تلاش کرنے اور پاکستان کے لوگوں کا اعتماد جیتنے کی ضرورت ہے۔ آئی پی پی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہے۔ کیونکہ متبادل قیادت کو جب موقع ملے گا اور وہ لوگوں کی زندگیوں میں آسانی پیدا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو عوامی رائے اور حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔ عوامی رائے بدل بھی سکتی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ بہت مضبوطی سے جڑے لوگ بھی اسی صورت کسی اور رخ سفر کریں گے جب انہیں کچھ بہتری نظر آئے گی۔ آئی پی پی کے بعض لوگ حکومت یا کسی عہدے کے بغیر بھی بہت کام کر رہے ہیں انہیں اپنی سماجی و فلاحی سرگرمیوں کو زیادہ بہتر اور موثر انداز میں عوام کے سامنے رکھتے ہوئے عام لوگوں سے اپنے رابطوں کو بڑھانا چاہیے۔ لوگوں کے پاس جانا ملنا جلنا اور ان کے درد کو تقسیم کرنا انتخابات سے قبل اور بھی زیادہ اہم ہے ۔ اس سے بھی اہم وہ نیت اور سوچ ہے کہ اقتدار کی کوئی اہمیت نہیں صاحب حیثیت کو جو اس ملک نے دیا ہے وہ اس ملک کو واپس کرنے کے لیے کام کریں۔
آخر میں عبد المجید سالک کا کلام
چراغ زندگی ہو گا فروزاں ہم نہیں ہوں گے
چمن میں آئے گی فصل بہاراں ہم نہیں ہوں گے
جوانو اب تمہارے ہاتھ میں تقدیر عالم ہے
تمہیں ہو گے فروغ بزم امکاں ہم نہیں ہوں گے
جئیں گے جو وہ دیکھیں گے بہاریں زلف جاناں کی
سنوارے جائیں گے گیسوئے دوراں ہم نہیں ہوں گے
ہمارے ڈوبنے کے بعد ابھریں گے نئے تارے
جبین دہر پر چھٹکے گی افشاں ہم نہیں ہوں گے
نہ تھا اپنی ہی قسمت میں طلوع مہر کا جلوہ
سحر ہو جائے گی شام غریباں ہم نہیں ہوں گے
اگر ماضی منور تھا کبھی تو ہم نہ تھے حاضر
جو مستقبل کبھی ہو گا درخشاں ہم نہیں ہوں گے
ہمارے دور میں ڈالیں خرد نے الجھنیں لاکھوں
جنوں کی مشکلیں جب ہوں گی آساں ہم نہیں ہوں گے
کہیں ہم کو دکھا دو اک کرن ہی ٹمٹماتی سی
کہ جس دن جگمگائے گا شبستاں ہم نہیں ہوں گے
ہمارے بعد ہی خون شہیداں رنگ لائے گا
یہی سرخی بنے گی زیب عنواں ہم نہیں ہوں گے