نومنتخب وزیراعظم سے کون ملا....

ایک ننھی سی خبر پیش خدمت ہے۔ ب±ری نہ لگے تو اچھی بات ہے اور ب±ری لگے تو اور بھی اچھی بات ہے۔ کراچی میں تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے مقتدر شخصیت نے ایک بڑی سعودی سرمایہ کاری کی خبر دی تھی اور جس کی رقم بتا دی تھی کہ کتنی ہوگی۔ اس کے بارے میں سعودی عرب نے طے کر لیا ہے کہ اس کا اعلان بلکہ سرمایہ ڈالنے کا اقدام فرور‘ی مارچ میں نومنتخب وزیراعظم کے حلف اٹھانے کے فوری بعد کیا جائے گا۔
ہفتہ کے روز لندن میں سعودی فرمانروا کے خصوصی نمائندے اور اہم وزیر نے نوازشریف سے ملاقات کی اور اس فیصلے سے انہیں آگاہ کیا۔ اب میرا خیال ہے کہ یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ نومنتخب وزیراعظم کون ہوگا۔
................
خبر کا ”سیاسی“ حصہ یہ ہے کہ ملاقات میں شہبازشریف بھی شریک تھے۔ ملاقات کی تاریخ کافی عرصہ سے پائپ لائن“ میں تھی۔ شہبازشریف دورہ لندن مکمل کرکے پاکستان آگئے تھے۔ پاکستان پہنچتے ہی لندن میں انہیں اطلاع ملی کہ عرصہ سے زیرانتظام ملاقات کیلئے ہفتہ کا دن طے ہوا ہے۔ چنانچہ بھاگم بھاگ لندن پہنچنا شہبازشریف کی مجبوری تھی۔ وہ ماردھاڑ کرتے پہنچے اور ہفتے کو اس ملاقات میں شرکت کر لی۔ اس دوران ریاست قطرکی طرف سے بھی ”نومنتخب“ وزیراعظم کو خیر سگالی بشمول یقین دہانی موصول ہو چکی ہے۔
................
بھاگم بھاگ کے اس ایڈونچر میں گوجرانوالہ والی ملاقات کی ہوائی کسی نے چھوڑ دی جو دیکھتے ہی دیکھتے معتبر مستند ذرائع کی خبر میں بدل گئی اور خبر کا متن بڑھانے والوں نے یوں بڑھایا کہ اہم ترین شخصیت نے شہباز کو گوجرانوالہ پہنچنے کا حکم دیا۔ وہاں ایک بڑے ادارے میں شہباز کی پیشی ہوئی اور اس انہیں وارننگ دی گئی کہ نوازشریف نے چھ رکنی گینگ کے احتساب کا جو اعلان کیا ہے‘ فوراً اس میں سے کم از کم ایک نام ڈراپ کرے ورنہ تو بس ورنہ ورنہ! چنانچہ شہباز بھاگم بھاگ لندن پہنچے اور بھائی جان کو اس نئی قیامت کے ٹوٹنے کی اطلاع جانکاہ سے آگاہ کیا۔ ازاں بعد اس مستند اور معتبر خبر پر مین سٹریم الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا پر سینکڑں پروگرام ہوئے۔ ان پروگراموں نے وہ سماں باندھا کہ شہبازشریف کی اس تردید پر کسی نے توجہ دینے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جس میں انہوں نے کہا کہ ایسی کوئی ملاقات نہیں ہوئی اور گوجرانوالہ تو عرصہ دراز ہوا‘ کبھی گئے ہی نہیں۔
ایک مریض کو ڈاکٹر نے دیکھا اور نفی میں سر ہلاتے ہوئے اس کی موت کا اعلان کیا۔ مریض چلایا کہ میں تو ابھی زندہ ہوں۔ لوگوں نے مریض کو ڈانٹ دیا کہ چپ رہو‘ مستند ذرائع تم ہو کہ ڈاکٹر۔ شہباز کی تردیدکسی نے قبول نہیں کی‘ ظاہر ہے کہ مستند ذرائع کچھ اور بتا رہے تھے۔ 
................
شہزادہ بے جان عالم مہینے پھر سے فریاد کر رہے تھے کہ مجھے اڈیالہ بھیجو‘ اٹک سے جان چھڑاو¿۔ وکیلوں کو حکم دیا کہ فوراً رٹ کرو۔ انہوں نے رٹ کر دی۔ اخبارات اور میڈیا پر درد بھرے پروگرام بھی ہوئے کہ جان بے عالم کی جان عذاب میں ہے‘ اڈیالہ جانا ان کا بنیادی حق ہے۔ آخر عدالت نے رٹ پر فیصلہ سنا دیا کہ بلا تاخیر شہزادہ صاحب کو اڈیالہ روانہ فرما دیا جائے۔
یہ فیصلہ آنا تھا کہ شہزادہ صاحب پاو¿ں پسار کر ڈٹ گئے کہ میں تو اڈیالہ نہیں جاو¿ں گا، مجھے تو اٹک جیل راس آگئی ہے‘پسند آگئی ہے۔ میرا دل یہاں جم گیا ہے۔ اب تو اڈیالہ بالکل نہیں جاو¿ں گا‘ وکیل سے کہا درخواست فوراً واپس لو۔ وکیلوں نے کہا کہ اب تو فیصلہ آگیا‘ درخواست کی واپسی کا کوئی سوال ہی نہیں رہا ہے۔
آخر اڈیالہ جانا پڑا۔اس اچانک یو ٹرن کی وجہ یہ پتہ چلا کہ کسی نے شہزادہ صاحب کو اطلاع دی تھی کہ اڈیالہ جاتے ہی سائفر کیس چل پڑے گا۔ اٹک میں رہو گے تو کیس کی سماعت طول پکڑے گی۔ شہزادہ حضور کو بات سمجھ میں آ گئی۔ بلا جتنی دیر ٹلی رہے‘ اچھا ہے‘ لیکن بات سمجھنے میں شہزادہ حضور نے حسب سابق‘ حسب معمول اور حسب عادت تاخیر کر دی۔ یو ٹرن تب لیا جب تحریری فیصلہ بھی آچکا تھا۔
سو اب سائفر کیس ہے اور شہزادہ حضور ہیں۔ اٹک جیل میں تھے تو زمان پارک کو یاد کیا کرتے تھے۔اب اڈیالہ میں ہیں تو اٹک جیل کو یاد کیا کریں گے۔
................
پی ٹی آئی نے ڈیل کی خبروں کو اتنا اچھالا کہ اچھے اچھے اعتبار کر بیٹھے۔
کمال کی حکمت عملی تھی۔ پہلے محمد علی درانی کو لائے‘ جنہوں نے یہ تاثر دیا کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ نے بھیجا ہے۔ مصالحت کاری اور وکیل کیلئے۔ پھر مشاہد حسین کو لایا گیا جنہوں نے مدر آف آل ڈیلز کی خبر دی لوگ اعتبار نہ کرتے تو کیا کرتے۔ بھلا ہو ”ذرائع“ کا جنہوں نے پریس ریلیز تو جاری نہیں کی‘ لیکن ٹی وی چینلز کے ذریعے واضح کر دیا کہ ڈیل کا کہیں وجود نہیں ہے۔ مذکوربالا دو معززین ازخود ہی سرگرم ہوئے ہیں اور یہ کہ 9 مئی کی معافی کا شائبہ بھی کسی دائرہ امکان میں نہیں۔ ڈیل کی یہ کہانی پوری گھڑی گئی۔ ”سنجیدہ“ملاقاتوں کے سلسلے کیوں شروع ہوئے۔ راز اس کا بھی کھل گیا۔ پی ٹی آئی کے ٹکٹ جن لوگوں کی تعداد کثیر نے چند ماہ پہلے لئے تھے‘ حالات دیکھ کر وہ ٹکٹ واپس کرنے کیلئے تگ و دوکر رہے ہیں اور ٹکٹ کی فیس واپس مانگ رہے ہیں۔ کہہ رہے ہیں کہ اچھا سارے پیسے واپس نہ کرو‘ کروڑ دو کروڑ ہی واپس کر دو‘ بھاگتے ایماندار کی لنگوٹی ہی سہی۔ حالات ایسے ہیں کہ‘ حکومت کو اس وضاحت کے باوجود کہ پی ٹی آئی کو الیکشن میں جانے کی کھلی اجازت ہوگی‘ٹکٹ لینے والے امیدواروں کا کوئی نشان نہیں۔
چنانچہ یہ سکیم بنائی گئی کہ ڈیل کی ہوا بنائی جائے تاکہ ٹکٹ واپس کرنے اور پیسے واپس مانگنے والوں کو قائل کیا جائے کہ بھئی ہم پھر آرہے ہیں‘ ٹکٹ واپس مت کرنا۔ پیسے کبھی واپس مت مانگنا بلکہ اور پیسے لا کر دو کہ کچھ نئے امیدوار بھی قطار میں لگ جائیں۔
بہرحال‘ یہ دو معززین نے رنگ جمانے کی کوشش تو بڑی ایمانداری سے کی‘ لیکن رنگ جم نہیں سکابلکہ اڑ ہی گیا۔ کچھ قصور اس میں ”ساڑھ ستی“کا بھی ہے۔ اب پتہ نہیں‘ پیسے واپس مانگنے والوں کی مراد بر آتی ہے یا نہیں۔ اس لئے کہ ساڑھ ستی کی زد میں وہ بھی آگئے ہیں۔ 
ڈالر کی قیمت گرتے گرتے 288روپے تک آ گئی ہے۔ یہ کمال حافظ صاحب کی ڈنڈا پالیسی کا بتایا جاتا ہے۔ شہبازشریف اور اسحاق ڈار بھی ڈالر کو سستا کر سکتے تھے‘ لیکن بدقسمتی سے انہیں وقت ہی نہیں ملا۔ ان کا سارا وقت تو اشرافیہ کو مراعات سے شرابور کرنے اور غریبوں کو ٹیکس کے سمندر میں غرق کرنے میں ہی لگ گیا۔ ورنہ آدمی تو وہ بھی تھے کام ہی کے۔ ویسے کیا منظر ہوگا جب نوازشریف اپنے دائیں بائیں شہباز اور ڈار کوکھڑا کرکے معیشت کی بحالی کا پروگرام دیں گے۔

ای پیپر دی نیشن