عمران خان کی جیل یاترا اور الیکشن کی شفافئیت پر سوالات

tahirbhullar27
کیا ڈالر پر کنٹرول عارضی ہے، کیا پاکستان سے ہمارے بھائیوں کا بیرون ملک رخت سفر باندھنے کا سلسلہ اسی تیزی سے جاری رہے گا کیا ملک بشمول گلگت بلتیستان میں سیاسی بے چینی ایسے ہی رہے گی،کیا آئین اپنی اصلی حالت میں واپس آئے گا، کیا گلگت اسمبلی کو توڑنا ضروری تھا اور اکثریت کو اقلیت میں بدلنا نا گزیر تھا، کیوں اپوزیشن کو وہاںبرداشت نہیں کیا گیا اور اس سے بیرون ملک ہماری قومی شناخت اور حیثیت کو متاثر نہ کیا گیا،کیا عوام کا اعتمادماضی کی طرح دوبارہ ہی نہیں بار بار بری طرح مجروح نہیں ہو گیا اور ہم دوبارہ جنرل ضیا کی ڈکٹیٹر شپ جب تمام اپوزیشن یا تو ملک سے بھاگ گئی یا پابند سلاسل کر دی گئی تھی ، کا غیر جمہوری منظر پچاس سال بعد پھر پیش ہونے جا رہا ہے،کیا ہم جمہوری ترقی معکوس کی طرف چلے جا رہے ہیں ، کیا پاکستان کے تمام ادارے افراتفری، لاقانونیت اور کرپشن کا شکار تو نہیں ہو رہے، کیا پاکستان میں ہی عوام کے ہر دلعزیز وزارااعظم کو عمر قید، پھانسی، اور قید وبند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑ تا ہے جو کہ عام لوگ قطعی نہیں چاہتے ہوتے، جن کو عوام پیار کرتے ہیں، کیوں یہ پاکستان کی قسمت میں ہی لکھا ہے کہ یہاں عوام کے نمائندے اپنی من مرضی سے کھل کر، خود مختارانہ انداز میں اپنی رائے کو دنیا اور اپنی قوم کے جائز حقوق کے لئے حرئت مندانہ طریقے سے عمل کر سکیںاور حکومت کر سکیں، اور اندرون ملک سیاسی کشیدگی اور معاشی زوال اور آئے دن پچھلے چالیس سالوں سے روزانہ کی بنیاد پر دھماکے اور سرحدوں پر دہشت گردی ہماری قومی وحدت اور سیاسی اور معاشی ارتقا کو آگے کی بجائے پیچھے کی طرف دھکیل دینے کی سامراجی سازشوں کی وجہ سے ہے یا ہماری ماضی یا آج کی سیاسی یا فوجی قیادت کی صریح ناکامی، یا ذہنی پستی یا غلامی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہم آج تک ایک خود مختار قوم کی حیثئت سے فیصلے نہ کر پائے اور عوام کو روزانہ کے دھماکوں اور قیدوبند کی تکلیفوں سے گزرنا پڑ رہا ہے ۔ اگر ہم اردگرد کے حالات اوران ممالک کے حالات کا جائزہ لیں تو کیا ہمیں آسانی سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان تمام ملکوں کے عوام سکون کی زندگی گزار رہے ہیں ان کی ترقی روز بروز بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے اور ان کے ادارے نظم وضبط سے چل رہے ہیں کیا ہمارے ارد گرد کسی ملک کو ایسی بے بسی ، لاچارگی لاقانونیت سے گزرنا پڑ رہا ہے، کیا انڈیا میں سینکڑروں زبانیں بولنے والے ارب سے زیادہ آبادی والے ملک میں بھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوا ہے، کیا بنگلہ دیش ہم سے زیادہ پر امن نہیں ، کیا انڈینیشیا ، ملائشیا ، فلےپائن اور ایشیا کے اکثر ممالک پاکستان کے مقابل کبھی دہشت گردی کے واقعات اتنے تسلل اور اتنی تعداد میں کبھی ہوئے ہیں اس طرح معاشی ترقی کو جمود کا شکار کرنے والی وارداتیں کتنی ہوتی ہیں۔ جس ملک میں امن ہی نہ ہو ادھر کون سرمایہ کاری کرے گا حضور، ہمارے تو اپنے عوام ہی بیرون ملک سدھار رہے ہیں کیا ہم نے ہی امریکا کے کہنے ، امریکی غلامی میں افغانستان پر جنرل ضیا کے دور میں فوجی جنگی محاذ میں ضرور اس گناہ کبیرہ میں شرکت کر کے اپنے سیاسی اور فوجی قوت کو پارہ پارہ کرنا تھا کہ آج وہ فوجی سپاہی جو بادڈرز پر قوم کی خاطر لڑ رہے ہیں ، عوام اس پر بھی رنجیدہ خاطر ہیں اور اس لاحاصل دہشت گردی کی اس جنگ سے تنگ آ چکے ہیںاور فوج کی تمام پالیسیوں کو تنقید کی نگاہ سے دیکھنا شروع ہوئے ہیں ۔ اس سے بڑھ کر ہماری قومی وحدت کو کیا نقصان ہو سکتا ہے کہ کوئی ایک ادارہ بھی عوام کے اعتماد کے قابل نہیں۔ ایسے میں ہمیں کیا کسی بیرون ملک دشمن کی ضرورت ہے ،کسی کو ہم پر حملہ کرنے کی ضرورت نہیں، نہ ہمارے پاس لڑنے کو تیل ، نہ بجلی ، نہ گیس اور نہ کوئی ادارہ یا کاروبار جس سے ملک کی کوئی کل تو
ٹھیک ہو۔ کیا بظاہر بجلی کے کنڈے اور گیس کے کنکشن کاٹنے کی چند روزہ پالیسی سے قومی نظریاتی وحدت واپس آسکتی ہے، کیا فوج اور سیاست دان ایک میز پر بیٹھ کر کب ملک کو اتفاق کی نوید دیں گے کہ ہمارا ہر فیصلہ آج سے آزاد ، خود مختار ہو گا پھر ہماری عوام روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرنے میں بھی اطمینان محسوس کریں گے کہ ان کی قربانی قوم کی اجتماعی بھلائی کے لئے ہے نہ کہ امریکی حکم پر ہے۔عمران خان کی گرفتاری کو عوام غصے سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ کم از کم امریکی چیرہ دستیوں کو کھلے عام چیلنج کر رہا تھا اور اگر آزادانہ فری اینڈ فیئر الیکشن ہوئے، تو عمران خان کو عوام کی اکثریت ووٹ دے گی ۔ماضی میں اس سے بھی زیادہ پاپولر لیڈر بے نظیر کو آئی جے آئی بنا کر اس وقت کی فوجی جنتا نے نہ صرف ناکام بنانے کا ناکام حربہ کیا تھا بلکہ اس کو سر عام قتل کروا دیا گیا جیسے بٹھو کو بھی پابند سلاسل رکھ کر پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا
قارئین پھانسی کے تختے پر کبھی گاس نہیں اگتی ، غیر ضروری جنگوں میں الجھی ہوئی قومی قیادت کے دعوے داروں کو آج کے حالات میں ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور مفاہمت کی پالیسی اپنانا ہوگی۔ عمران خان کو اپنی خود پیدا کردہ انتقامی انا پرست بیان بازی سے قوم کو مزید تقسیم سے بچانا ہو گا۔پچھلے چالیس سال سے زخموں سے چور قوم جس کا بال بال قرضوں میں لتھڑا ہوا ہے۔ اس پر رحم کریں۔ فوج کو فوجی عمارتوں پر عوام کے حملوں کے بعد غیر سیاسی غیر جانبدار رول یقینی بنانا چاہیے ۔ ماضی میں ایسا کبھی نہ ہوا تھا ۔اس کو آخری وارننگ سمجھنا ہو گا۔یہ ایک محب وطن کی التجا ہے۔
ٍ کیا