
ہمارے سیاستدانوں کے پاس کچھ نہیں ہے اگر یہ تعلیمی اداروں میں جائیں گے وہاں بھی سیاست کرتے ہیں، کسی کے جنازے میں جائیں وہاں بھی سیاست کرتے ہیں، کسی عدالت میں پیش ہوں باہر نکل کر سیاست کرتے ہیں، کسی کی تعزیت پر جائیں وہاں بھی سیاست کرتے ہیں۔ ان کے پاس بات کرنے کے لے کچھ نہیں ہے نہ یہ سمجھتے ہیں کہ کہاں کیا بات کرنی ہے۔ بدقسمتی ہے کہ ان کے پاس عوام کو جوڑنے، اتحاد اور اتفاق پیدا کرنے کے لیے کوئی مواد نہیں ہے، دنیا کا مقابلہ کیسے کرنا ہے اس حوالے سے کوئی سوچ نہیں ہے، یہ سوائے الزامات کے کچھ نہیں کرتے اور اس حوالے سے سب ایک پیج پر ہیں۔ یہ ایسے منفرد سیاست دان ہیں کہ جنہیں عوام کو قائل کرنے کے لیے ملک کے دفاعی اداروں کے خلاف نفرت پھیلانا پڑتی ہے یا پھر عالمی طاقتوں کے خلاف نفرت انگیز بیانیے کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ انہیں اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا۔ تعلیمی اداروں میں ہونے والی گفتگو غیر سیاسی ہونی چاہیے لیکن کیا صرف اس میں سکول، کالج اور یونیورسٹیاں شامل ہیں، کیا مدارس تعلیمی ادارے نہیں۔ عمران خان کی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں تقریر پر بہت شور ہے۔ شور اس لیے ہے کہ عمران خان اپوزیشن میں ہیں اگر وہ وزیراعظم ہوتے ت کوئی مسئلہ نہ ہوتا یا اگر میاں شہباز شریف شریک ہوتے تو بھی کوئی مسئلہ نہ ہوتا یہی نظریات کا فرق ہے، یہی سوچ کا فرق ہے جو بتاتا ہے کہ پاکستان کے سیاستدانوں کے پاس نوجوانوں کو قائل کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ایک ایسا سیاست دان جو نوجوانوں کو ریاستی اداروں کے خلاف بھڑکا رہا ہو کیا اسے تاریخی تعلیمی اداروں میں جانا چاہیے، کیا کسی ایسے سیاست دان کو تعلیمی اداروں میں تقریر کی اجازت ہونی چاہیے جو ہر ہفتے احتساب عدالت میں پیشیاں بھگت رہا ہو۔ یہ ملک کی بدقسمتی ہے۔ اگر سیاسی قیادت سنجیدہ رویے کا مظاہرہ کرتی ہو ، قومی اتحاد کی سوچ کو پروان چڑھائے اور ہر عمل کو سیاسی فائدے یا نقصان سے بالاتر ہو کر سوچے تو یقیناً ایسے مسائل پیدا نہ ہوں لیکن بدقسمتی سے انہیں لعن طعن، برا بھلا، الزامات کے سوا کچھ نہیں آتا۔
مریم نواز کہتی ہیں کہ "عمران خان کو جلسے کی اجازت دینے پرگورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلرکے خلاف ایکشن لیا جائے۔"
وفاقی وزیر احسن اقبال کہتے ہیں کہ یونیورسٹی کو سیاسی اکھاڑے میں تبدیل کر دیا گیا، مادر علمی نفرت انگیز تقریر کی جگہ نہیں ہوتی۔ گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کہتے ہیں کہ "گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کو سیاسی اکھاڑہ بنانا افسوس ناک ہے، جامعات میں اس طرح کے سیاسی جلسوں کی گنجائش نہیں، بچے ہمارا مستقل اور قومی سرمایہ ہیں انہیں سیاست میں دھکیلنے کی کوئی گنجائش نہیں۔"
یہ تصویر کا ایک رخ ہے ملک کے سیاستدانوں کو تعلیمی اداروں میں جانا چاہیے لیکن وہاں گفتگو اور تقریر کے لیے ضابطہ اخلاق کا ہونا اور اس پر عمل سب سے اہم ہے۔ تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کو مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے طریقے بتانا اور دنیا کا مقابلہ کرنے کا راستہ بتانا ضروری ہے۔ جامعات کے طلباءکو سیاسی گفتگو میں الجھانے کے بجائے ان کی کردار سازی، اعلیٰ اخلاق، جدید ٹیکنالوجی، تیزی سے ترقی کرتی دنیا کے تقاضے، نوجوانوں میں وطن سے محبت کے جذبے کو ابھارنا، انہیں ملک کی خدمت کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنے کا سبق دینا ضروری ہے۔ کوئی سیاستدان بھلے وہ حکومت میں ہے یا اس کا تعلق اپوزیشن ہے تعلیمی اداروں میں تقریر کے لیے ضابطہ اخلاق پر عمل سب کے لیے لازم ہے۔ اگر کوئی فکری گفتگو نہیں کر سکتا، اگر کوئی نفرت کو یونیورسٹی میں داخلے سے پہلے دفن نہیں کر سکتا تو اسے تقریر کی اجازت ہرگز نہیں ملنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت خود کو ملک کی خدمت کے لیے بھی تیار کرنا چاہیے تاکہ نوجوانوں کو بتانے کے لیے کچھ تو ہو کہ ہم نے پانچ، دس پندرہ یا بیس سال کے دور حکومت میں ملک کو مسائل سے نکال کر کیسے ترقی کے سفر پر ڈالا اور کیسے نوجوانوں نے اس سفر میں سیاسی قیادت کا ساتھ دیا۔ اگر سیاسی قیادت ملک کی خدمت کے جذبے کو پروان چڑھائے گی تو لوگ انہیں ہر وقت سننا چاہیں گے۔ وگرنہ یہ بیانات کا سلسلہ نہ رکا تھا نہ رکا ہے نہ رکے گا۔
ایک اور رخ مدارس کے حوالے سے ہے حکمراں جماعت نے گورنمنٹ کالج میں عمران خان کی تقریر پر برہمی کا اظہار کیا ہے لیکن مذہبی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد وہ حکومت قائم کیے ہوئے ہیں اگر کسی سیاست دان کی تقریر سے کسی یونیورسٹی کا تقدس پامال ہوتا ہے تو کوئی سیاست دان کیسے مدارس کے طلباءکو لے کر کسی بھی حکومت کے خلاف دھرنا دے سکتا ہے، کوئی بھی سیاست دان کیسے مدارس کے طلباءکو سیاسی مقاصد، سیاسی تحاریک کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ کیا ایسی حرکتوں سے مدارس یا ان کے طلباء کا تقدس پامال نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے اہل سیاست کیوں خاموش رہتے ہیں۔ طالب علم تو طالب علم ہے وہ کسی دینی مدرسے سے تعلق رکھتا ہو یا پھر اس کا تعلق گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے ہو۔ اس کی عزت ایک جیسی ہے اور دونوں کے تقدس کا خیال حکمرانوں کو ایک ہی انداز میں رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
دوسری طرف آڈیو اور ویڈیو لیک کی سیاست عروج پر ہے ملک کو تاریخ کے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ ہم اتنے بے حس ہیں کہ ایک دوسرے کی آڈیوز، ویڈیوز کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں۔ کسی کو یہ فکر نہیں کہ ایک طرف ہم دنیا سے امداد لے رہے ہیں دوسری طرف یہ تماشے کر رہے ہیں کیا مدد کرنے والے ہماری طرح بے وقوف ہیں کیا وہ نہیں سوچیں گے کہ یہ کون لوگ ہیں جنہیں اس مشکل وقت میں اپنے مصیبت زدہ ہم وطنوں کی مدد سے زیادہ ایسے کاموں میں دلچسپی ہے۔ یہ کام واضح طور پر ہماری سطحی سیاسی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ ہمیں پانی میں ڈوبتے، بیماریوں کا شکار ہوتے بچوں کی دل ہلا دینے والی آوازوں اور تصاویر سے زیادہ سیاسی مخالفین کی بند کمروں میں آڈیوز اور ویڈیوز میں دلچسپی ہے۔ اس سے زیادہ بے حسی اور کیا ہو سکتی ہے۔ پھر سیاست دان یہ کہتے ہیں کہ انہیں تعلیمی اداروں میں تقریر کی اجازت ملنی چاہیے۔