ڈھانچے
چند دن پہلے لندن کے ایک متروک قبرستان کی تصویر تقریبا"دنیا بھر میں وائرل ہو گئی جس میں ایک نامعلوم عیسائی راہبہ ، قبرستان کے اندر انسانی اور حیوانی ڈھانچے سے کھیل رہی ہے۔ لندن کا یہ’’ ہل ‘‘ نامی قبرستان کئی صدیوں پْرانا ہے جس میں مزید تدفین کی گنجائش نہ ہونے پر اسے پچاس سال قبل تدفین کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔
قبرستان کے ساتھ ہی ایک سڑک ہے جس پر گزرنے والی گاڑیوں میں موجود لوگوں نے یہ ہولناک منظر دیکھا تو حیرت زدہ رہ گئے اور تمام تر خوف کے باوجود کچھ لوگوں نے ڈھانچوں کے ساتھ کھیلنے والی اْس پْرسرار راہبہ کی تصاویر بنا لیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں۔جنہیں لاکھوں لوگوں نے دیکھا اور نیوز چینلز نے بھی مسلسل یہ خبر چلائی۔ پاکستان میں تو کچھ اینکرز نے اس پر باقاعدہ پروگرام بھی کر ڈالے۔
قبرستان چاہے پاکستان کا ہو یا لندن کا اور یہ قبرستان مسلم ہو یا غیر مسلم ، اْس کی ہولناکی ، ویرانی اور خوف تقریبا ً ہر معاشرے میں ایک جیسا ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لندن کے صدیوں پْرانے’’ ہل ‘‘ قبرستان میں ڈھانچوں کے ساتھ کھیلتی راہبہ کی لوگ صرف تصاویر ہی بنا پائے۔۔ وہ اس خوفناک منظر کی ویڈیو بنانے کا حوصلہ نہ کر سکے۔ حالانکہ یہ تو ایک عام سی بات ہے کہ قبرستان میں دفن ہونے کے بعد مْردے کی ہڈیاں ڈھانچے کی شکل میں برقرار نہیں رہتیں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں تو خاتون جن انسانی اور حیوانی ڈھانچوں سے کھیل رہی تھی وہ کسی قبر سے نکلے ہوئے نہیں ہو سکتے تھے۔
دو ہفتے گزرنے کے بعد بھی وہ پْرسرار راہبہ ابھی تک نامعلوم ہی ہے کیونکہ اس کی تصاویر بنانے والے یہ پوچھنے کی ہمت ہی نہ کر سکے کہ محترمہ۔۔ آپ کون ہو ؟ جن ہو یا انسان ؟ اور کہاں رہتی ہو ؟ کہاں سے آئی ہو ؟ یہ سب کیوں کر رہی ہو ؟ یہ کوئی کھیل ہے ؟ جادو ٹونہ یا کوئی چلہ ؟ اِن میں سے کسی سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے سوائے حیرانگی کے۔۔ کہ یہ کیا منظر تھا۔
میں نے بھی یہ تصاویر دیکھیں اور ان کی خبریں پڑھیں تصاویر اور خبروں پر تو مجھے ذرا حیرانگی نہیں ہوئی کیونکہ ہمارا معاشرہ بڑی بڑی باتوں پر بھی حیران نہیں ہوتا۔ یورپین شعور ہر بات نوٹ کرتا اور حیران ہوتا ہے۔ البتہ لندن کے اس شہر خموشاں کے جناتی اور ماورائی سْنائے گئے اس واقعہ کے پس منظر پر غور کرتے کرتے میرے ہوش ضرور خطا ہوگئے جو ابھی تک بحال نہیں ہو پائے۔۔۔۔۔ میں مسلسل سوچتا چلا جا رہا ہوں کہ۔۔۔ لندن کے ایک قبرستان میں انسانی ڈھانچے کے ساتھ کھیلتی راہبہ کی تصویر نے آدھی دنیا کو حیران کر دیا ہے۔۔۔ اور ہم کیسی مخلوق ہیں جو ہر لمحہ ڈھانچوں کے ساتھ کھیل رہی ہے۔۔ اور کوئی ذرا سا بھی حیران نہیں ہو رہا ! کسی کو ایک لمحے کی بھی ہولناکی محسوس نہیں ہو رہی۔۔ ہم کیسے زندہ لوگ ہیں جو سینکڑوں ، ہزاروں ، لاکھوں ڈھانچوں کے ساتھ موجود ہیں۔۔۔ ہم میں سے ہر کوئی۔۔ مہنگائی ، بے رحمی ، سنگ دلی ، عدم تحفظ ، بیروزگاری ، غیرضروری اختیارات ، طاقت ، عدم شعوری ، عدم ذمہ داری ، بے حسی اور بے انصافی کے ساتھ کرپشن جیسے مسائل میں گھراکا ایک ڈھانچہ بن چکا ہے۔ کیونکہ کسی بھی سانحے کسی بھی سنگین صورتحال اور کسی بھی بڑے سے بڑے المیے پر پرْسرار خاموشی چھائی ہے جیسے کسی قبرستان کے ماحول میں ہوتی ہے۔۔ یوں لگتا ہے کہ موجودہ حالات میں ہر بے بس باپ ایک ڈھانچہ ہے جو گھر میں اپنے ڈھانچہ نما بچوں اور اہل خانہ کے ساتھ موجود ہے۔۔ یہی ڈھانچہ باہر اور درجنوں انسانی ڈھانچوں سے برسر پیکار ہے۔۔۔ پورا سسٹم ہی ڈھانچوں پر مبنی ہے ، جابجا کہیں سڑکوں پر یہ ڈھانچے گاڑیاں چلا رہے ہیں بازاروں میں ڈھانچے ہی دوکاندار اور یہ انسانی ڈھانچے ہی خریدار ہیں۔۔ بازاروں سے باہر نکلیں تو دفتروں میں بھی ہر طرف انسانی ڈھانچے ہی ڈھانچے ہیں جن کے ناموں اور عہدوں کی تختیاں بھی ساکت نہیں ہیں یہ سب جْنبش میں ہیں اِن کے ہاتھ ، پاوں ، ہونٹ ، زبان اور پلکیں چل رہی ہیں۔۔ اور سب سے حیران کْن منظر تو یہ ہے کہ سب کی سانسیں بھی چل رہی ہیں۔۔۔ سوائے احساس اور شعور کے !
لیکن۔۔ پھر بھی کوئی حیران نہیں !! کسی کو کوئی پریشانی نہیں۔۔۔ حتی کہ۔۔ حیرانی کے نہ ہونے کا بھی احساس تک نہیں۔یہ سب خیالات مجھے ایک بار پھر بچپن کے درسی نصاب میں پڑھی ہوئی کہانی کی طرف لے گئے جس کا عنوان تھا ’’ سویا ہوا محل ‘‘ اْس سوئے ہوئے محل کی کہانی میں پورا ملک ہی سویا ہوا تھا ہر انسان اپنی اپنی جگہ موجود تھا بس چل پھر نہیں رہا تھا یا دیکھ نہیں رہا تھا۔۔ اس کہانی کے کافی سالوں بعد کسی بادشاہ کی آنکھ کھل گئی اور وہ کہانی درسی کتابوں سے غائب کر دی گئی۔۔۔ اب میری آنکھوں کے سامنے موجود ہیولے بھی چل پھر رہے۔۔۔ سانسیں لے رہے اور کبھی کبھی کھا پی بھی رہے ہیں۔۔۔ لیکن ان کا شعور ، احساس اور سوچ ساکت اور جامد ہوتی جا رہی ہے یا کی جا رہی ہے۔۔۔ لگ یہی رہا ہے کہ یہ کچھ سالوں بعد ہرے بھرے درختوں کے پتے کھا کر اْنہیں بھی ٹْنڈ مْنڈ اور اپنے جیسے ڈھانچے بنا دیں گے کیونکہ تب ان کے پاس ان درختوں کے پتے کھانے کے سوا اور کچھ باقی نہیں بچے گا۔۔۔ اور بعد میں آنے والی نسلوں کو درسی نصاب میں ’’ سوئے ہوئے محل ‘‘کی جگہ ’’ ڈھانچوں کا وطن ‘‘ پڑھایا جائے گا۔