منگل ‘ 20؍ صفر‘ 1443ھ‘ 28 ؍ ستمبر2021ء
تحریک انصاف نے ملک کو زوال کی طرف دھکیلا ہے۔ قوم اجتماعی توبہ کرے۔ سراج الحق
قوم بھلا کیوں اجتماعی توبہ کرے۔ توبہ تو وہ لوگ کریں جنہوں نے موجودہ حکمرانوں کو ووٹ دئیے۔ یا پھر بقول اپوزیشن جو لوگ انہیں لائے۔ قوم بے چاری تو شروع سے ہی بھولی مج کی طرح ہے۔ جہاں چارا دیکھا ٹھہر کر منہ مارنے لگتی ہے۔ کبھی جمہوریت کے نام پر کبھی مارشل لا کے نام پر کبھی سوشلزم کے اور کبھی اسلامی نظام کے نعرے پر اس قوم نے بے شمار دھوکے کھائے بقول شاعر
دوست کچھ ایسے بنائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج کچھ ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے
70 سال اسی تعاقب میں گزرے۔ عقل عیار سو بھیس بدل بدل کر ان بھولے بھالے عوام کو خوب دھوکے دیتی ہے۔ یہ ہر بار زخم کھا کر بھی پھر دھوکا کھا جاتے ہیں۔ 2018ء میں عوام نے تبدیلی کا خواب دکھانے والوں پر اعتبار کر لیا۔ الیکشن میں ان کو ووٹ دے کر مسند اقتدار تک پہنچایا۔ اس کے بعد کیا ہوا سب کے سامنے ہے۔ تبدیلی آئی مگر وہ نہیں جس کا دعویٰ کیا جا رہا تھا۔ حالت میں ابتری کی شکل میں تبدیلی نمودار ہوئی اور یہ اس قدر کاری وار ثابت ہو رہی ہے کہ جماعت ا سلامی جیسی تنظیم کے غیر جذباتی رویہ رکھنے والے قائد بھی پکار اٹھے ہیں کہ تحریک انصاف نے ملک کو زوال کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اس لیے قوم اجتماعی توبہ کرے۔ یہ وہ جماعت ہے جو 5 برس خیبر پی کے میں پی ٹی آئی کی اتحادی رہی۔ اس کا تجزیہ کوئی جذباتی ڈائیلاگ کہہ کر رد نہیں کر سکتا۔ سراج الحق نے کچھ دیکھا ہے ، محسوس کیا ہے تو وہ ایسا کڑوا کڑا بول رہے ہیں۔ کاش ہمارے حکمران ان آخری دو سالوں میں ہی کچھ ایسا کر جائیں کہ قوم کو اجتماعی توبہ کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔
٭٭٭٭
شوہر گنجا ہے۔ سعودی دلہن نے دو روز بعد ہی طلاق مانگ لی
ایک وہ لوگ ہیں جن کے نخرے ختم ہونے کو نہیں آتے اور ایک ہم ہیں کہ نخرے دکھائیں بھی تو کس کو۔ یہاں نہ تو نازو نخرے اٹھانے والے باقی رہے ہیں نہ نازو انداز دکھانے والے باقی بچے ہیں۔ حالات اور واقعات نے ایسا پٹخا دیا ہے کہ لڑکی والوں کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دولہا گنجا ہے یا دراز زلفوں والا۔ بس ایک ہی فکر انہیں کھائے جاتی ہے کہ کسی طرح بیٹی کی ڈولی اٹھے اور وہ اپنے گھر خیر سے رخصت ہو کر جائے۔ حد سے حد بس یہ دیکھا جاتا ہے کہ لڑکا کماتا ہے یا نہیں۔ اب شکل و صورت ثانوی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ ہاں البتہ لڑکے والوں کے دماغوں میں ابھی تک چاند جیسی بہو لانے کا بھوت سوار ہوتا ہے۔ اپنا بیٹا چاہے اماوس کی رات کی طرح سیاہ رو کیوں نہ ہو۔سعودی عرب میں شادی بیاہ کا سارا خرچہ مرد یعنی دولہا والوں کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ ہماری طرح لڑکی والے جہیز کے بوجھ تلے نہیں دبتے۔ اس کے باوجود وہاں اس خاتون کی دلیری نوٹ کریں صرف اس بات پر شادی کے دو روز بعد ہی طلاق طلب کرلی کہ دولہا میاں گنجے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے۔ اگر گنجا ہونا مسئلہ ہوتا تو آج دنیا بھر کے گنجے کنوارے ہی مر جاتے کوئی ان سے شادی نہیں کرتا۔ مگر دنیا بھر میں لاکھوں خوبرو نوجوان بھی گنجے ہیں۔ ان کی شادیاں کامیابی سے چل رہی ہیں۔ یہ بہرحال اس خاتون کی زیادتی ہی کہلائے گی کہ اس نے ایک پیار کرنے والے شوہر کا دل توڑ دیا۔ نجانے اس گنجے فرشتے نے کس طرح اتنی خطیر رقم جوڑ کر اپنے سر پر شادی کا سہرا سجایا تھا جو اس ظالم دلہن نے دو روز میں ہی نوچ ڈالا۔
٭٭٭٭٭
قومی ترانہ کی دوبارہ ریکارڈنگ کا فیصلہ
خدا جانے یہ حکومت کو کیا سوجھی ہے کہ وہ جانے انجانے میں ایسی حرکات کرتی پھرتی ہے کہ اسے چاروں طرف سے یلغار بلا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شاید حکمران خود ہی چاہتے ہیں کہ نہ وہ خود آرام سے رہیں نہ عوام کو آرام سے بیٹھنے دیں۔ اب بھلا قومی ترانے کی دوبارہ ریکارڈنگ کون سا ایسا ایشو ہے جس پر فوری کام کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کی ریکارڈنگ کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے۔ کیا اس کی آواز میں فرق آ رہا ہے یا ساز مدھم پڑ رہے ہیں یا پھر ہو سکتا ہے کہ کسی وزیر با تدبیر نے مشورہ دیا ہو کہ یہ ترانہ اب نئے ساز و آواز کے ساتھ تیار کرایا جائے۔ مگر کیا لوگ اس تبدیلی کو پسند کریں گے۔ یہ کام اتنا آسان نہیں۔ لوگ نصف صدی سے’’ پاک سرزمین شادباد‘‘ والی آواز اور اس کے کانوں میں جذبۂ حب الوطنی کا رس گھولنے والے ساز سے مانوس ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک نجی ٹی وی نے بھی نئے جدید آہنگ و ساز کے ساتھ قومی ترانے کو جدید انداز میں پیش کرنے کی سعی کی مگر اسے کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔ لوگوں نے ذرا بھر بھی اس کی پذیرائی نہیں کی۔ دیکھتے ہیں یہ حکومتی کوشش کس قدر کامیاب ثابت ہوتی ہے۔ ویسے بیٹھے بٹھائے اپنے لیے مسائل پیدا کرنا عجیب بات ہے۔ شاید اس طرح حکمران خراب معاشی حالت سے عوام کی توجہ ہٹا کر انہیں ایسے بحث مباحثے میں الجھانا چاہتے ہیں جس کا حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا۔ مگر اس طرح حکمرانوں کو چند روز سکون کے مل جاتے ہیں اور عوام میں حکومت کے حامی اس کے حق میں اور مخالف اس کی مخالفت میں آسمان سر پر اٹھائے پھرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
ہزاروں ٹن گندم اور چینی سے لدے جہاز کراچی پہنچ گئے
اب کہیں بھوکی ننگی قوم خوشی کے مارے ناچتے ہوئے سڑکوں پر نہ نکل آئے۔ کیوں کہ خبر کے مطابق ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے یہ چینی جو لوگوں کا منہ میٹھا کرانے کے لیے منگوائی گئی ہے نہایت مہنگے داموں خریدی گئی ہے۔ جی ہاں یہ چینی یوٹیلٹی سٹورز کو 123 روپے فی کلو پڑے گی تو پھر اندازہ لگا لیں اس میں غریب عوام کو کیا فائدہ ملے گا کیا ریلیف ملے گا۔ وہ تو 80 روپے کلو خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ وہ بھلا اب یوٹیلٹی سٹورز پر 123 روپے کلو خریدتے ہوئے غش کھا کر گریں گے نہیں تو کیاناچنے لگیں گے۔ اب لامحالہ حکومت کو اس چینی پر سبسڈی دینا پڑے گی یوں قومی خزانہ پر جو بوجھ پڑے گا اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو مہنگے داموں یہ چینی خریدنے کے سودے میں ملوث ہیں۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ایک زرعی ملک جو کبھی زرعی اجناس میں خود کفالت حاصل کر رہا تھا۔ اس حالت پر پہنچ گیا ہے کہ آٹا ، دالیں ، چاول ، چینی تک باہر سے منگوا رہا ہے۔ کیا ہماری زمینیں بانجھ ہو گئی ہیں یا ساری زرعی زمینیں ٹائون ڈویلپر مافیا کو اونے پونے داموں فروخت کر دی گئی ہیں۔ یا پھر ان سونا اُگلتی زمینوں پر کارخانے کھڑے کر کے صنعتی مافیا کو خوش کیا جا رہا ہے۔ گندم، چاول ، گنا ، دالیں ، سبزیاں تو پاکستان میں دو دہائی قبل تک ارزاں وہ بھی وافر مقدار میں دستیاب تھیں۔ اب یہ کیا ہو گیا ہے کہ ہم کھانے پینے کی اشیاء کے لئے بھی محتاج ہو گئے ہیں۔
٭٭٭٭٭