وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے وفاق اور سندھ حکومت کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت سے معاملات میں وفاقی حکومت اکیلے کچھ نہیں کر سکتی اور بہت سے معاملات میں صوبائی حکومت اکیلے کچھ نہیں کر سکتی ان حالات میں ہمیں سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ملک کی خاطر، سندھ کی خاطر اکٹھے ہو کر چلنا پڑے گا۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان نہایت خوش آئند ہے۔ انہیں اس بیان کی حقیقی روح کے مطابق حکمتِ عملی بھی ترتیب دینی چاہیے کہ کیسے وفاق اور سندھ ایک ساتھ چل سکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے وزراء کی بیان بازی پر پابندی ہونی چاہیے کیونکہ وفاق میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت ہے اور سندھ میں وزیر اعلیٰ پاکستان پیپلز پارٹی کا ہے۔ دونوں جماعتیں اتحادی نہیں ہیں، دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی سیاسی دشمن ہیں ان حالات میں دونوں اکٹھے مل کر کیسے چل سکتے ہیں۔ ان دونوں کو ملک و قوم کے لیے پہلے ذاتی و سیاسی اختلافات کو ختم کرنا چاہیے لیکن کیا ایسا ممکن ہے۔ پاکستان میں یہ روایت نہیں یہاں جب تک سیاسی مفادات نہ ہوں مخالفین ایک ساتھ کبھی نظر نہیں آتے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت پر نیب کیسز چل رہے ہیں، پی پی پی کا موقف ہے کہ یہ سیاسی کیسز ہیں اور حکومت ان کیسز کے پیچھے کھڑی نظر آتی ہے۔ جب میں یہ لکھ رہا تھا تو مجھے اندازہ تھا کہ ایسا ممکن نہیں ہے پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی موجودہ حالات میں ایک نہیں ہو سکتے۔ دونوں کے سیاسی نظریات بھی مختلف ہیں اور ویسے بھی اتنے شدید اختلافات ہیں کہ ایک دوسرے کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ اسی دوران خبر ملی کہ وزیراعظم عمران خان سابق صدر آصف علی زرداری کو پاکستان کی قیادت کرنے والوں میں کرپٹ ترین رہنما قرار دے دیا ہے یہ بھی کہا ہے کہ نواز شریف بھی آصف زرداری سے مختلف نہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں مضمون لکھا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ سابق صدر آصف زرداری نے امریکیوں کو پاکستان میں حملوں کی اجازت دی۔ امریکی کتاب ’اوباماز وار‘ کا ذکر کیے بغیر کتاب میں درج آصف زرداری کا جملہ ازسرِ نو تحریر کیا کہ ’اہداف پر حملوں کے دوران معصوم شہریوں کا قتل امریکیوں کو پریشان کرتا ہوگا، اْنھیں ( یعنی آصف زرداری کو ) نہیں۔ یعنی ایک ہی دن وزیراعظم کے مختلف خیالات سامنے آئے ہیں اگر وہ سندھ کی ترقی چاہتے ہیں تو سب سے پہلے انہیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کی ایک حقیقت ہے جب تک کہ آپ اسے انتخابات میں شکست دے کر سندھ اسمبلی سے باہر نہ کر دیں اس وقت تک کسی اور سے بات چیت نہیں کی جا سکتی۔ پھر آپ کیسے سندھ اور وفاق کو ایک صفحے پر اکٹھا کر سکتے ہیں۔ اتفاق رائے کے لیے لوگوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے جو کچھ کیا اس حوالے سے کیسز عدالتوں میں ہیں۔ وہ وہاں اپنا کیس کڑ رہے ہیں ان کیسز کے فیصلوں تک حکومتی نمائندوں کو بولنے کی کیا ضرورت ہے۔ وزیراعظم بات کریں گے تو اس کی شدت اور بھی بڑھ جائے گی ان حالات میں مفاہمت کے تمام راستے بند ہو جاتے ہیں۔ پھر کیا ضرورت ہے کہ آپ ایسے بیانات جاری کریں ایک طرف ساتھ ملنے کی بات کریں دوسری طرف انہیں کرپٹ کہیں تو پھر وہ کیوں آپ کے ساتھ بیٹھیں گے۔ ابھی حال ہی میں پاکستان مسلم لیگ نون نے پی ٹی آئی کے ساتھ کرکٹ میچ کھیلنے سے انکار کر دیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ نون نے بھی وہی موقف اپناتے ہوئے کرکٹ میچ تک کھیلنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا ایک طرف ہمیں چور کہتے ہیں دوسری طرف کرکٹ کھیلنے کی بات کر رہے ہیں۔ ایسی مثالیں واضح کرتی ہیں کہ آخر سیاست دان کیسے سوچتے ہیں اور یہ ان کا حق بھی ہے اگر کوئی سیاستدان انہیں برا بھلا کہتا ہے تو وہ بھی مناسب وقت پر اس کا جواب دیں۔ سو اب انہوں نے بھی جواب دیا یہی حال کل تک وزیراعظم عمران کی اس کوشش کا ہو گا جو انہوں نے اچھی امید کے ساتھ پیش کی ہو گی لیکن ساتھ ہی انہوں نے واشنگٹن پوسٹ کا آرٹیکل بھی قوم کے سامنے رکھ دیا ہے۔ اس کے بعد تو پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے کوئی راستہ نہیں بچتا کہ وہ اس کا جواب دیں اور بھرپور انداز میں دیں۔
ہمارا المیہ یہی ہے کہ سیاست دان ذاتی اختلافات میں اس حد تک آگے نکل جاتے ہیں کہ واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ ملک میں سب سے زیادہ کمی احساس، تحفظ اور برداشت کی ہے۔ ہم کسی دوسرے کو برداشت نہیں کرنا چاہتے، نہ ہی کسی کو اہمیت دینا چاہتے ہیں، اکثریت دونوں طرف سے بیانات اور الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور کئی کئی روز تک لوگ اس بیانات کی خوبیوں خامیوں پر بحث میں مصروف رہتے ہیں۔ کاش کہ سیاست دان کم از کم قومی معاملات میں ہی قومی مفاد کو ہی ترجیح دیں لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ بہرحال سیاسی جماعتوں کی لڑائیوں میں نقصان ملک کا ہوتا ہے۔ عام آدمی کا خون چوسا جاتا ہے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا، کوئی اس کے آنسو نہیں پونچھتا کوئی اس کا خیال نہیں رکھتا، حکومتیں آتی ہیں اور جاتی ہیں لیکن عام آدمی کے مسائل کوئی نہیں سکتا۔ پاکستان کو نیا بنانے کے وعدے کرنے والوں کو یاد ہو گا کہ آج ملک میں غربت، بے روزگاری اور مہنگائی میں خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے کہ لوگ خود کشیوں کا سوچ رہے ہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024