ہم کبھی نہ بھول پائیں گے
چوبیس ستمبر 2019 ،یہ ایسا دن تھا جس کو ہم کبھی نہ بھول پائیں گے جس نے ہنستے بستے گھروں میں صف ماتم بچھا دی۔ جہاں خوشیوں کے میلے تھے وہاں اْداسیوں نے ڈیرے ڈال لیے جہاں زندگی مسکراتی تھی وہاں ویرانیوں کا خوف طاری ہو گیا کچھ دیر پہلے تک تو سب کچھ ٹھیک تھا کسی کے بھی وہم وگمان میں نہیں تھا کہ آن واحد میں کھڑی شریف کا خوب صورت منظر بدل جائے گا نہر اْپر جہلم کے کنارے پر واقع منگلا جا تلا ں روڈ اور اس کے خوب صورت ہرے بھرے درخت کھڑی شریف کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیتے تھے چوبیس ستمبر کو اپنے پیاروں کو ہنستا مسکراتا چھوڑ کر روز گار کے سلسلہ میں گھروں سے نکل جانے والوں کو علم بھی نہیں تھا کہ جب وہ واپس آئیں گے تو خوب صورت منظر بدل چکے ہوں گے گھر تباہ ھو چْکے ہوں گے اور کہی پیارے پیارے لوگ ہمیشہ کے لیے سو چکے ہوں گے وہ راستے وہ گلیاں اور بازار تباہ ہو کر عجیب دکھائی دیتے ہوئے نظر آئیں گے۔یوں تو چوبیس ستمبر کی صبح بھی ایک محمول کی صبح تھی میں حسب معمول فجر کی نماز کے لیے اٹھا نماز کی ادائیگی کے بعد دفتر کے لئے تیار ہوا ناشتا کیا والدہ محترمہ کی خدمت میں حاضر ہوا سلام کیا اور دعائیں لے کر دفتر کی طرف روانہ ہو گیا۔میرا بیٹا بھی مجھ سے پہلے ہی اپنے کالج چلا گیا میری بیگم بھی اپنی ڈیوٹی پر جا چکی تھیں میں نے دفتر جا کر اپنے فرائض منصبی ادا کرنے شروع کر دیے بطور اسٹیٹ آفیسر ایجوکیشن بورڈ میرپور میری زمہ داریوں میں اضافہ ہو گیا چیئرپرسن وقت محترمہ انجم شاہ نقوی کے ساتھ میٹنگ بھی تھی۔ میٹنگ سے فارغ ہو کر اگلے ٹارگٹ کی طرف میں نے اپنی توجہ کر دی۔یوں دن کا ایک بج گیا مسجد سے اذان کی آواز بلند ہوئی ابھی وضو کا قصد کیا تھا کہ ایک مہمان دفتر میں آ گئے اْن سے ابھی فارغ ہوا ہی تھا ارادہ تھا کہ نماز ظہر ادا کروں لیکن پھر ایک اور مہمان آ گے یوں نماز کے لیے نہ جا سکا آنے والے میرے خاص دوست تھے اْن کو میرے دفتر میں کام تھا اْن کی خاطر تواضع کے بعد اْن کو دوسرے شعبہ سے کام کروا کر دیا تو دو بج رہے تھے کہ اور ڈاک بھی آ گئی میں نے سوچا کہ یہ ڈاک نکال لوں تا کہ باہر سے آنے والوں کا کام جلدی ھو جائے یہ ڈاک کرتے کرتے ٹائم خاصا گزر گیا میرے دل میں عجیب طرح کی بے چینی پیدا ہو رہی تھی میرا دل کر رہا تھا کہ میں گھر چلا جاؤں۔جب انجان قسم کی اْداسی میں اضافہ ہوا تو میں نے ارادہ کر لیا کہ اب میں نماز ظہر گھر جا کر ادا کر لوں گا یوں میں دو بج کر پچاس منٹ پر دفتر سے باہر نکل آیا۔دفتر سے گھر تک صبح والا ہی منظر تھا نہر کے کنارے لگے درخت اور اْن کی ٹھندی ٹھندی چھاں بہت اچھی لگ رہی تھی موسم بھی مزے کا تھا تین بج کر پچیس منٹ پر میں اپنے گھر میں داخل ہوا احسان ھمارا بہت اچھا ملازم تھا اْس نے مین گیٹ کھولا میں نے کار پارکنگ کے بعد امی جان کے کمرے کا رْخ کیا وہ سو رہی تھیں سلام کیا لیکن جواب نہ ملا میرا معمول تھا کہ دفتر سے واپسی پر سب سے پہلے امی جان کو سلام کرتا اْن کا حال پتہ کر کے اور دعا لے کر اپنے کمرے کی طرف جاتا۔جب میں اپنے کمرے میں گیا تو بیگم نے کہا کہ کھانا کھانا ھے تو میں نے کہا کہ کھانا ھے آپ کھانا بنا لیں۔بیٹی نے کہا کہ میں نے بھائی کے ساتھ میرپور جانا ھے بینک سے پیسے لینے ھیں۔میں نے کہا کہ دیکھو کہ میں اس لیے جلدی آ گیا ہوں۔دونوں بہن بھائی میرپور چلے گئے میں نے بیگم کو کہا کہ میں نماز ظہر ادا کر لیتا ہوں وضو کیا نمازادا کرنے میں دس منٹ لگ گے کھانا کھانے کے بعد ابھی ہمیں باتیں کرتے ہوئے کوئی پندرا منٹ ہی ہوے ہوں گے کہ چار بج کر پانچ منٹ پر یک دم ایک زور دار آواز بلند ہوئی اونچی جگہ پر رکھا ہوا گلاس فرش پر گرا چھت زور زور سے ہلنے لگی جیسے کہ ہمارے اوپر گرنے لگی ھو یہ زلزلہ تھا میری بیگم نے چیخ مار کر کلمہ طیبہ کا ذکر کرنا شروع کر دیا اور کمرے کے دروازے سے باہر نکلیں میرے تو حواس جواب دے چْکے تھے بڑی مشکل سے باہر نکلے۔بیگم نے کہا کہ امی اندر ھیں اْن کو لے آئیں۔زلزلے کے جتھکے ابھی ختم نہیں ہوئے تھے کہ میں امی جان کے کمرے میں گیا آواز دی وہ سو رہی تھیں بڑی مشکل سے اْن کو لے کر باہر آ گیا۔اب زلزلے کی تباہی کے آثار نظر انا شروع ہوے برآمدے کا ماربل پھٹ چکا تھا چاردیواری گر گئی تھی مکان میں کر ?کس آ چکے تھے۔باہر پارکنگ کے صحن میں بھی فرش جگہ جگہ سے پھٹ چکا تھا۔جب میں نے اپنے گھر سے باہر نکل کر دیکھا تو لوگوں کے کچے مکان گر چْکے تھے دیواریں ملیا میٹ نظر آئیں روڈ کی طرف گیا تو روڈ مکمل طور پر تباہ ہو چکی تھی مجھے اپنے بچوں کی فکر لگ گی جو میرپور گے تھے موبائل فونز کے نیٹ ورک ختم ھو چکے تھے۔پریشانی میں اضافہ ہو گیا۔کچھ دیر بعد نیٹ ورک بحال ہوا تو بیٹی نے کہا کہ ہم ٹھیک ھیں۔پھر دوستوں عزیزوں کے فون انا شروع ہو گے سب نے محبت و ہمدردی کا اظہار کیا جس کے لیے میں اج بھی اْن کا شکر گزار ہوں۔یہ پانچ اعشاریہ چار کا شدید زلزلہ تھا اس کا مرکز بھی سموال شریف کا پہاڑ ی سلسلہ تھا کھڑی شریف اور گرد و نواح کے علاقوں میں پھیلنے والی تباہی کی خبریں انا شروع ہو چکی تھیں پچاس کے قریب لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔الامان و الحفیظ۔اج ایک سال گرز گیا ہے لوگ دْکھ کی اِس گھڑی کو زندگی بھر نہیں بھول پائیں گے دْکھ اتنا گہرا ھے کہ اس کا درد مدتوں تک رھے گا تباہی و بربادی کے آثار بھی کبھی نہیں مٹ سکیں گے۔ہم سے بچھڑ جانے والے کبھی نہیں مل پائیں گے اللہ تعالیٰ شہدائ زلزلہ کے درجات بلند فرمائے۔تعمیر و ترقی بھی ھو جائے گی روڈز بھی بن جائیں گی مکانات بھی بن جائیں گے مال و متاع بھی میسر آ جائے گا اگر کچھ نہیں ملے گا تو وہ پیارے جو ہم سے بچھڑ گئے وہ غم کے لمحات تا زیست ہم نہیں بھول پائیں گے خوف و دہشت کی وہ گھڑیاں جب یاد آئیں گی تو پھر کوئی بھی تو چین کی نیند نہیں سو سکے گا سال بھر میں کھڑی شریف کے لوگ خوف و ہراس کی فضا میں جی رہے ہیں کہی بار زلزلے کے شدید جھٹکے بھی آ چکے ہیں۔لیکن یہ سب میرے رب کی رضا ھے آفات سماوی و زمینی سے محفوظ رکھنے کی طاقت بھی اْسی کے پاس ھے وہی ہم سب کو انے والی ایسی آفات سے بچا سکتا ھیہم کمزور لوگ ہیں ہم کسی آزمائش کے قابل نہیں ہیں ہم زمین کی جبش کو برداشت نہیں کر سکتے اور نہ ہی زمین کی جنبش کو روک سکتے ھیں یہ سب تورب رحمان و رحیم کے پاس ھے وہ ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھے حفظ و امان میں رکھے اپنی یاد والی وہ زندگی عطا فرمائے جس میں ہر گھڑی ہم اْس کو یاد کرتے رہیں ہم اْس کی یاد سے غافل نہ ہوں۔وہ ہم سب کو اپنے پیاروں کی جدائی کا غم اور اپنے دنیاوی نقصانات کے ازالے کے لئے اپنی رحمت و برکت کا نزول فرمائے ۔آمین