جدیدنظام تعلیم اور تبدیلی کے تقاضے
مکرمی!تقریباً سبھی نے بس زیادہ نمبروں کو معیار بنا رکھا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ والدین کی اس خواہش کے پیچھے بچوں کے چہروں کی رونقیں اْجڑ چکی ہیں، وہ بچے کم اور اسٹریس کے مریض زیادہ لگنے شروع ہو گئے ہیں۔ یہی حال اسکولوں کا ہے۔ وہاں بھی زیادہ سے زیادہ نمبروں کی ایک عجیب و غریب قسم کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ کوئی دن میں دس گھنٹے تعلیم دینے پر تلا ہوا ہے تو کوئی بارہ گھنٹے کی سروس فراہم کر رہا ہے.
اس اسٹریس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ بچے تھکاوٹ سے چور ہو چکے ہوتے ہیں، انہیں سر درد کا مسئلہ رہتا ہے، بھوک نہیں لگتی، سونے کے مسائل پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں، ان کی صحت متاثر ہو رہی ہے، ان کی باقی صلاحیتیں مفلوج ہو کے رہ گئی ہیں اور سب سے بڑھ کر بچوں کی خوشیاں ختم ہوتی جا رہی ہیں. کچھ دن پہلے ہی میڑک کارزلٹ آیاتھا اور ایک طالب علم نے کم نمبرآنے پر موت کو زندگی پر ترجیح دی اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایسی تعلیم دے رہے ہیں جو محض ڈگری دیتی ہے، کامیابی کے جھنڈے گاڑنے اور فاتح ہونے کا سبق سکھاتی ہے، مسابقت کی بات کرتی ہے لیکن ناکامیوں کا مقابلہ کرنا، شکست کو گلے لگانا، نامساعد حالات میں امید کا دامن تھامے رہنا اور جینا نہیں سکھاتی۔ بچوں کو یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ ہر بچہ خاص ہوتا ہے ہر بچے میں کچھ نہ کچھ قابلیت ہوتی ہے اور کچھ نا کچھ کمزوری ہوتی ہے، والدین اور اساتذہ کو ہر بچے کی اس خاصیت کو پہچاننا ہے اور دیکھنا چاہیے اسے کس چیز میں خوشی ملتی ہے. سوچنا، سمجھنا، سیکھنا سب کچھ ہمارے تعلیمی نظام کے لیے بے معنی ہو کررہ گیا ہے۔تعلیم کے حوالے سے جیسے جیسے تعلیمی اداروں میں اضافہ ہورہا ہے ویسے ہی تعلیمی معیارمیں کمی آتی جا رہی ہے۔اس صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے موجودہ تعلیمی نظام کا جائزہ لیا جائے اور اس بات کا اندازہ لگایا جائے کہ ایک ناقص اور دقیانوسی نظام ِتعلیم کی ہمیں مستقبل میں کیا قیمت چکانی پڑے گی۔صرف سکولوں کی حالت بہتر بنانے سے تمام مسائل حل نہیں ہوجائیں گے. ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی نئی نسل میں علم حصول کی جستجو اور لگن پیدا کریں۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کیلئے ایک ایسا ماحول بنانا ہوگا جس کے ذریعے طالبعلموں میں علم کے حصول کا شوق پیدا کیا جاسکے اوروہ تعلیم کے ذریعے اپنے احساسات و خیالات کو عمدہ طریقیسے بیان کرسکیں نہ کہ صرف تعلیم کو نوکری کے حصول کا ذریعہ سمجھا جائے۔
(عطیہ حمید، جھلار ساون واہگہ ، لاگر ضلع شیخوپورہ)