گورنر پنجاب کے نام
خوش قسمتی سے پنجاب کو ایک ایسا گورنر نصیب ہوا ہے جو اپنی مٹی اور ثقافت سے جڑا ہوا ہے، جس کی ترجیحات میں پاکستان کو ترقی یافتہ ملکوں میں شامل کرنا اور یہاں کے عوام کا معیارِ زندگی بلند کرنا ہے۔ انہوں نے کیوں کہ ایک ترقی یافتہ ملک کا نظام دیکھ رکھا ہے اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی نظام کو مضبوط کیا جائے اور ہر ادارہ قواعد و ضوابط کی پوری طرح پابندی کرے۔
گزشتہ دورِ حکومت میں بھی انہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی لیکن انہوں نے صرف پروٹوکول کو انجوائے کرنا مناسب نہ سمجھا۔ وہ کچھ بدلنے کی آرزو لے کر پاکستان آئے تھے۔ کچھ منصوبوں کی تکمیل کے لئے انہوں نے اپنی برطانوی شہریت ترک کی تھی۔ برطانیہ میں خاص و عام کی تمیز نہیں ہوتی۔ وہ اعلیٰ ایوان کے ممبر ہوتے ہوئے بھی عام انسانوں کی طرح زندگی گزارتے تھے۔ انہوں نے کوشش کی کہ یہاں بھی انسانوں کے درمیان تفریق کو کم کیا جائے لیکن انہیں بتایا گیا کہ یہ ان کے اختیارات میں نہیں ہے۔ بے اختیار گورنری انہیں قبول نہ تھی اس لئے وہ استعفیٰ دے کر تبدیلی کی لہر کا حصہ بن گئے۔ انہوں نے ہر معاملے میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا اور پارٹی کی تنظیمِ نو میں مثبت کردار ادا کیا۔ تحریکِ انصاف نے ایک دفعہ پھر انہیں وہی ذمہ داری سونپی جو صوبے کی سب سے بڑی ذمہ داری کہلاتی ہے۔ گورنر آئینی طور پر صوبے کا سربراہ ہوتا ہے۔ چودھری سرور کے آنے سے گورنر ہائوس کو نئی زندگی ملی ہے۔ وہاں کے افسران اور دیگر عملہ تو خوش ہے ہی لیکن پنجاب کے عوام بھی ان کی تقرری پر بے حد مسرور ہیں۔ آج کل یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ گورنر ہائوس کو یونیورسٹی بنا دیا جائے یا کوئی اور ادارہ یہاں قائم کر دیا جائے۔
میں سمجھتی ہوں کہ گورنر ہائوس کو گورنر ہائوس ہی رہنے دیا جائے۔ یہ ایک صوبے اور ملک کی شناخت کا آئینہ دار ہے۔ یہاں بڑی بڑی تقریبات ہوتی ہیں۔ اس تک عام لوگوں کی رسائی کو ممکن بنا کر ایک اچھا قدم اٹھایا گیا ہے۔ وہ لوگ جو یہاں سے گزرتے ہوئے اس عمارت کو حیرت سے دیکھتے تھے اب اس کے اندر جا کر اس کا دیدار کر سکتے ہیں۔
یوں تو گورنر صاحب نے تعلیم کے حوالے سے اپنے خاص نظریات کا اعادہ کیا ہے اور امید ہے کہ ان کے دور میں یونیورسٹیوں کا نظام بہتر ہو گا، نئی یونیورسٹیاں تعمیر ہوں گی، یونیورسٹیوں میں تحقیقی کام پر زور دیا جائے گا۔ اگر ہمارے ہاں بھی تحقیق کے حوالے سے طلباء کو جدید لیب مہیا کی جائیں تو وہ بھی ایجادات کی استطاعت رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم مغرب کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں لیکن ہمارے استعمال میں آنے والی 99 فیصد چیزیں ان کی بنائی ہوئی ہیں۔ ہمارے پاس فخر کرنے کو ماضی کے قصوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ پچھلی حکومت میں تعلیم کے حوالے سے بھی گورنر کے اختیارات کم کر کے وزیر تعلیم کے اختیارات زیادہ کر دیئے تھے۔ ضروری ہے کہ یونیورسٹیوں کے حوالے سے وہ اختیارات دوبارہ بحال کئے جائیں۔ طلباء کو وظائف دے کر بیرونِ ملک بھیجا جائے تا کہ وہ دنیا کی ترقی کو دیکھ کر اور جدید سہولتوں سے فیض یاب ہو کر لوٹیں اور ملک کو ترقی کی ڈگر پر رواں کریں۔ ہمارے ہاں ابھی تک صاف پانی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ گورنر صاحب نے پچھلے دور حکومت میں اس حوالے سے بہت مفید اقدامات کئے تھے۔ گزارش ہے کہ اس طرف بھی توجہ دیں کیوں کہ گندے پانی کی وجہ سے بے شمار بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
لاہور یوں تو پاکستان کا خوبصورت شہر ہے مگر لاہور کی خوبصورتی کو گرہن کی طرح گندے نالے نے بدصورت بنا رکھا ہے۔ یہ نالہ لاہور کے پوش ایریے سے گزرتا ہے اور اس سے نکلنے والی بدبو فضا میں رچ کر لوگوں کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کر رہی ہے۔ گزشتہ دور میں ایک نالے پر تو سڑک تعمیر کر کے اس کا بندوبست کیا جا چکا جب کہ جیل روڈ اور شادمان کے قریب سے گزرنے والا نالہ جو اور بھی بہت سے علاقوں کو متاثر کرتا ہے ابھی تک حکومتی توجہ کا مستحق ہے۔ گورنر صاحب سے خصوصی گزارش ہے کہ وہ اس حوالے سے حکومت پنجاب کو اس پر سڑک تعمیر کرنے یا ترقی یافتہ ملکوں کی طرح کور کرنے کی طرف راغب کریں۔ صحت مند انسان کے لئے صحت مند ماحول کی بہت اشد ضرورت ہوتی ہے۔ یہی آب و ہوا ہماری سوچ کو بھی متاثر کرتی ہے۔ چودھری محمد سرور صاحب ایک مثبت سوچ کے حامل فرد ہیں۔ پنجاب کے لوگوں کو ان سے بہت سی توقعات ہیں۔ پارٹی میں ان کے مشورے کو معتبر جانا جاتا ہے۔ اب بات اختیارات کی نہیں بلکہ مل کر کام کرنے کی ہے۔ اس وقت وہ پنجاب کے سینئر رہنما ہیں اور ایک بہت معتبر عہدے پر فائز ہیں۔
دعا ہے کہ وہ پنجاب کی ترقی کے لئے کچھ ایسے اقدامات کر جائیں کہ وطنِ عزیز دنیا میں اپنی خاص پہچان بنا سکے۔ ان کی ہر دلعزیز شخصیت کا سب احترام کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو ان کی پارٹی نظریات سے اتفاق نہیں کرتے وہ بھی ان کی عزت کرتے ہیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ پنجاب کے گورنر واقعتا پورے پنجاب کے نمائندہ انسان ہیں جن کی شخصی خوبیوں کی وجہ سے ہر طبقۂ فکر میں خاص پذیرائی ہے۔ دعا ہے کہ وہ اپنے نیک کاموں میں کامیاب ہوں۔