عالمی امن کو’امریکانائزیشن ‘ سے سنگین خطرات
'عالمی گوبلائزیشن'کاامریکی خواب شرمندہ تعبیرہونا تھا نہ ہوا نہ ہی مستقبل قریب میں پینٹاگان کی عالمی اجارہ داری قائم ہونے جیسے آثارکسی کودکھائی دے رہے ہیں اصل بات یہ ہے کہ پینٹاگان کے بزرجمہروں نے جس نئے عالمی نظام کا خاکہ کبھی تیار کیا ہوگا جس میں چاربڑے اہم ستون بطوربنیادی رکھے گئے تھے کہ اکیسیویں صدی میں جب تک ممکن ہوسکے امریکا کو واحد سپرپاور کی حیثیت حاصل رہے کوئی متبادل قوت اْسکے مقابل نہ آئے ان چاروں ستون کی تفاصیل یہاں رقم کرنے کی جگہ ہے نہ ضرورت'مختصرا ًاول یہ کہ دنیا کے معاشی واقتصادی سسٹم پرامریکا کا مکمل کنٹرول قائم ہوجائے'دوئم دنیابھرمیں انفرادی آزادیوں کی نقل وحمل کی کڑی نگرانی کی چوکسی امریکی ہاتھوں میں ہی رہے'انسانی حقوق کی آزادی کے نام پر انسانی حقوق کو امریکا جب چاہے اپنی کٹھ پتلی حکومتوں کے ذریعے سلب کرسکے، جس میں خاص طور پر ذرائع معلومات کے توسط سے اقوام عالم کی فکری'ثقافتی اور تہذیبی اظہارپر امریکی اثرورسوخ واضح غالب ہو، مطلب امریکی جیسا سوچتے ہیں دنیا بھی ویسا ہی سوچے 'دوئم‘ ٹیکنالوجی عام نہ ہو سکے امریکی مرضی ومنشاء کے تابع فرمان رہے ’سو ئم‘ نیوکلیئراور ہائی ٹیک حساس ٹیکنالوجی تک کسی غیر امریکی سائنسدان کی پہنچ نہ ہوپائے اس 'نئے عالمی نظام' کا چوتھا اور آخری مقصد یہی گردانا گیا کہ دنیا کے سبھی خطوں میں نئی سیاسی حصار بندی قائم کی جائے جس کی لگامیں امریکا کے ہاتھوں میں رہیں امریکی قیادت میں نیٹو کی توسیع سرفہرست ہو پینٹاگان نے اپنی اسی متکبرانہ سوچ سے مرعوب ہوکر مشرق وسطیِ افروایشیائی ممالک اورخلیجی مسلم ریاستوں سمیت سعودی عرب تک اپنے عسکری اثرات کا دائرہ پہلے مرحلے میں پھیلایا اورجس کے پس منظرمیں امریکی مفادات کی نیورکھی گئی' ساتھ ہی روس اورمغرب سے منسلک ریاستوں کے علاوہ مسلم ممالک پربراہ راست امریکی نظام کے دروبست پرکنٹرول کا جال پھیلادیا گیا، ذرا امریکی عسکری انتظامات کی وسعت پذیری دیکھ لیجئے ساتھ ہی دنیائے اسلام کی واحد مسلم ایٹمی ریاست پاکستان کے ازلی دشمن ملک بھارت کو افغانستان میں بٹھا کر پاکستان کو ہمہ وقت دباو میں رکھنے کی مذموم سازشی منصوبہ بندیاں اورچین کے سامنے بھارت کو 'ایشیائی قوت'کے طورپرآگے لانے جیسی بدنیت کوششیں اسی'نئے عالمی نظام'کا طے کردہ 'شیڈول'ہے امریکا اس میں کہاں تک کامیاب ہوا ہے؟ یہ ایک تشنہ سوال سمجھیں وہ اس لئے کہ وقت سے پہلے دنیا چو کنا جو ہوگئی ہے مثلاً ایران میں شہنشاہیت کے خاتمے کے بعد خونریزانقلاب کے نتیجے میں اسلامی انقلاب کے ثمرات کو دھندلانے کیلئے پہلے عراق کے صدرصدام کو اپنا مہرہ بنایا پھر ایران اور عراق کے مابین ایک لاحاصل طویل جنگ شروع کرادی گئی اور کچھ عرصہ بعد ایک بار پھرصدام کو استعمال کرکے کویت کی سرحدوں کے اندر عراقی فوج کی لشکرکشی کی آڑ میں خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب کے دفاع کے نام پر خلیج میں امریکی فوجیں اتاردینا اور سب سے بڑھ کرنائن الیون کی آڑمیں بن لادن کی تلاش اور اِس مطلوب شخص کو امریکا کے حوالے کرنے کی عالمی مہم چلائی گئی مغرب کو اپنے پیچھے لگا لیا گیا، مسلم دنیا کو دہشت گردی کے لیبل میں پیش کیا جانے لگا یوں 'نئے عالمی نظام' کا بھانڈہ کیسے عالمی چوراہے میں پھوٹ کررہ گیا ،جس کے نتیجے میں امریکا دنیا کے سامنے بالکل عریاں یعنی ننگا ہوگیا،دنیا نے مشاہدہ کرلیا کہ ’ عالمی نظام‘ نام کی کوئی شے نہیں ہے بلکہ اگر اِسے 'امریکائنزیشن'کانام دیا جائے تو غلط نہ ہوگا مختلف سیاسی فریب کاریوں'دھوکہ دہی پرمبنی حیلوں اور عذربہانوں سفارتی عیاریوں کے مختلف لبادوں میں دنیا کے ترقی پاتے امن کو سبوتاژ کرنے میں امریکا نے انسانیت کی تاریخ کو جتنا لہولہان کیا ہے اسکی مثال نہ ماضی میں کہیں ملتی ہے اور شائد کبھی ملے بھی نا، نائن الیون کے بعد سے تاحال امریکا کتنے دھڑلے اور دیدہ دلیری سے اپنے ہی کئی وعدوں کے باوجودافغانستان پر اپنا ناجائز قبضہ جمائے بیٹھا ہواہے اوراسکی بغل کی بْکل میں بیٹھا بھارت اپنی متعصبانہ ہندوتوا کی مکارانہ چالیں چل کر صدیوں کے’فاتحان ِ ہند‘ کے ملک افغانستان سے اپنی دشمنیوں کا بدلہ چکانے کی نیت وہاں یوں بیٹھا ہے، جیسے اُسے واپس جانا ہی نہیں ہے اور یہی نہیں بلکہ افغانستان کے پڑوسی ملک پاکستان کیلئے بھی بھارت مستقل عفریت بنا ہواہے، نائین الیون سے ا ب تک کے گزرے ہوئے عرصہ میں بھارت نے امریکی ایماء پرافغان اسٹبلیشمنٹ میں اپنا مسلم دشمن اثر ورسوخ بہت زیادہ بڑھالیاہے، افغانستان کی صدیوں کی تاریخ کے ماہرین کہتے ہیں کہ افغان قوم کی اصل بنیادیں قباِئلی رسم ورواج پر سختی سے قائم ہیں جوکبھی تبدیل نہیں ہوسکتیں ،مغربی جمہوریت اور افغان قبائلی معاشرہ دومتضاد اضداد ہیں امریکا اور نیٹو افغانستان میں اپنا وقت ضائع کررہے ہیں' افغان معاشرے میں کبھی مغربی نوع کی جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکتی، لہذاء جس روز امریکی اور نیٹوفوجی دستے افغانستان سے نکلے اْسکے ساتھ ہی بھارت کوبھی افغانستان سے ذلت آمیز ناکامی کا منہ دیکھنا پڑیگا اور اپنا بوریا بستر گول کرنا پڑیگا افغانستان میں امریکی موجودگی نے خطہ کے امن کی حسیاست کو وقت کے ساتھ اور زیادہ تشویش ناک بنادیا ہے اب توروس اور ایران نے بھی پاکستان کی طرح سے یکسو ہوکرسوچنا شروع کردیا ہے کیونکہ'سی آئی اے‘موساد 'اور'را' پاکستان اور ایران دشمنی میں متحد ہیں ایکا کرچکے ہیں افغان علاقہ میں کہیں دہشت گردی کی کوئی واردات ہوتی ہے فورا بھارتی میڈیا ہاؤسنز پاکستانی فوج اور پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کو موردالزام ٹھہرا کر واویلا مچانے لگ جاتے ہیں، افغان انٹیلی جنس ادارہ بھی پاکستان کیخلاف حصہ بقدر جسہ ملانے لگتا ہے امریکا اور نیٹو سے کوئی پوچھتا کیوں نہیں کہ اْنکی موجودگی میں کیسے اور کیونکر افغانستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں ممکن ہوجاتی ہیں؟ امریکی سیکرٹری خارجہ کے دورہ پاکستان سے قبل بھی بھارتی میڈیا نے ماضی کی اپنی بغض وعناد پر اپنا مخاصمانہ بے سروپا اور من گھرت پروپیگنڈامہم چلائی جس کا اُسے کوئی ذرا بھی فائدہ نہیں پہنچا، دنیا کے غیر جانبدار پْرامن طبقات کو اپنی معنی خیز خاموشی کو بالاآخر اب توڑنا پڑیگا اور افغانستان میں یکطرفہ دکھاوے اور جھوٹ کے قائم کردہ سیاسی وسفارتی بتوں کی نخوتوں کو گرانے کیلئے اُنہیں میدان میں آکر اپنا غیر جانبدار کردار اداکرنا پڑیگا حد ہوتی ہے کب تک پاکستان اکیلا فرنٹ لائن پر افغانستان میں امن کے قیام کیلئے جدوجہد کرتا رہے، کسی نے توجہ دی ہے کہ روس نے افغانستان کے دیرپا امن کے قیام کو ممکن بنانے کے لئے 'ماسکوکانفرنس'کا لائق تعریف احسن اقدام کیا تھا نئی دہلی کی ایماء پر صدر غنی نے ماسکو امن کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا’ ماسکو کانفرنس ‘کو سبوتاژ کرکے صدر غنی نے افغانستان کے عوام کی کوئی خدمت کی ہے ؟ وجوہ صرف یہ تھی کہ افغانستان کے ایک حقیقی ’ اسٹیک ہولڈر تحریک طالبان افغانستان‘ نے ’ماسکو کانفرنس‘ اپنی شرکت کی آمادگی ظاہر کردی تھی اور یہ کتنا بہترین موقع تھا کہ روس جیسی ایک بڑی عالمی و علاقائی سپر پاور طاقت کی موجودگی میں بلکہ اُس کی 'مہمان نوازی' میں سبھی فریق ممالک باہم مل کر اپنے خطہ میں قرار واقعی امن کے حل کے کسی حتمی نتیجے پر پہنچتے؟ امریکا اور بھارت مگر راضی نہیں تھے تو اِس کا مطلب دنیا خود سمجھ لے کہ افغانستان کے حقیقی امن کے اصل دشمن کوئی اور نہیں ہیں بلکہ یہی بھارت اور امریکا ہی ہیں۔