امریکہ کے شر سے بچیں
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ ’’ جس آدمی کے ساتھ بھلائی کریں اسکے شر سے بچیں‘‘۔یہ قول انسانوں پر تو صادق آتا ہی ہے ملکوں کے رویوں پر بھی صادق آتا ہے اور اسکی تازہ ترین مثال امریکہ ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے یکم جنوری کے ٹویٹ میں پاکستان پر الزام لگایا تھا کہ’’ ہمارے بے وقوف لیڈروں نے پاکستان کو33 ارب ڈالرز کی امداد دی لیکن پاکستان کی طرف سے ہمیں جھوٹ اور دھوکہ بازی کے سوا کچھ نہ ملا ۔‘‘یہ امریکی صدر کا نکتہ نظر تھا لیکن میرے خیال میں ہمارے لیڈرز بھی اتنے ہی بیوقوف (معذرت) تھے جنہوں نے امریکہ جیسے دوغلے اور جھوٹے ملک کی باتوں پر اعتماد کر کے امریکہ کی جنگ اپنے گلے ڈال لی۔صرف یہی نہیں بلکہ اپنے 80ہزار معصوم شہری موت کے منہ میں دھکیل دئیے اور 100ارب ڈالرز اپنے وسائل سے اس جنگ پر خرچ بھی کر دئیے۔اپنا انفراسٹرکچر بھی تباہ کرالیا جس کو امریکہ مانتا ہی نہیں۔بیوقوف امریکی قیادت تھی یا ہماری قیادت؟ہمارا اتنا کچھ نقصان کرنے کے باوجود آج امریکہ ہمارے اوپر ٹانگ رکھ کر بات کرتا ہے۔ یہاں داد دینی پڑتی ہے بھارتی قیادت کی جس نے عملی طور پر امریکہ کے لئے کچھ نہیں کیا۔کوئی قربانی نہیں دی۔صرف خوشنما باتوں اور پاکستان کے خلاف منافرت پھیلا کر امریکہ کو خوش کیا اور آج وہ امریکہ کا فطری اتحادی اور اہم سٹر یٹیجک پارٹنر ہے۔ اسے امریکہ اور امریکی اتحادیوں سے ہر قسم کے ہتھیار خریدنے اور حساس ترین ٹیکنالوجی حاصل کرنے کا حق ہے اور قربانیاں دینے والے پاکستان کو اداشدہ قیمت کے طیارے بھی نہیں مل سکتے۔ یہ ہے فرق عملی تعاون کا اور خوش کن بھارتی ڈپلومیسی کا۔
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ آخر بھارت کے اتنا قریب کیوں اور کیسے آگیا ہے؟ امریکہ کیا حاصل کرنا چاہتا ہے اور بھارت کن چیزوں یا کن مقاصد پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ہنری کیسنجرنے ٹھیک کہا تھا کہ :’’ امریکہ کا دشمن ہونا اتنا نقصان دہ نہیں جتنا امریکہ کا دوست ہونا ہے ‘‘۔امریکہ نے کسی ملک کے ساتھ آج تک دوستی نہیں نبھائی سوائے اسرائیل کے ۔امریکہ کے تمام دوست ممالک کو کسی نہ کسی اہم مقام پر دھوکہ ملا ہے۔ امریکہ کی دوستی ’’بنئیے‘‘ والی ہے کہ جب تک کسی ملک سے کوئی کام ہے تو امریکہ دوست ہے لیکن جب کام نکل گیا تو تُو کون اور میں کون ؟یہ وہ سانپ ہے جو اپنے ہی بچوں کو کھانا شروع کر دیتا ہے۔اب بھارت سے نئی نئی دوستی ہے۔ بھارت کی حد سے زیادہ ناز برداری اٹھائی جا رہی ہے۔بھارت کو ایک عظیم ملک اور بھارتی وزیر اعظم کو دنیا کا عظیم راہنما قرار دیا جا رہا ہے لیکن کب تک؟جب مطلب نکل جائیگا تو پھر بھارت کی کیا پوزیشن ہو گی؟بھارت امریکہ دوستی کے پس منظر میں کیا حقائق کار فرما ہیں کا ایک سرسری سا جائزہ پیش خدمت ہے۔
امریکہ اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور ہے ۔دنیا کے بہت سے ممالک امریکی حکومت کے رحم و کرم پر پلتے ہیں۔ علاوہ ازیں امریکہ حساس ٹیکنالوجی خصوصاً جدید ہتھیاروں کی تیاری میں بھی سب سے آگے ہے۔ بھارت کو جو کچھ امریکہ سے مل سکتا ہے وہ کسی اور سے نہیں مل سکتا۔ بھارت روس دوستی بھی بہت پرانی اور بہت مضبوط ہے مگر روس اب بھارت کو وہ سب کچھ نہیں دے سکتا جو کچھ امریکہ دے سکتا ہے۔ اسی لئے بھارت امریکہ کے قریب آیا ہے کہ وہ امریکہ سے فائدہ اٹھائے۔ سب سے پہلا فائدہ بھارت کو یہ ہے کہ امریکہ نے اپنے تمام حساس ٹیکنالوجی والے ہتھیاروں کے دروازے بھارت پر کھول دئیے ہیں۔ امریکہ کی راہبری میں اسرائیل اور اہل یورپ نے بھی بھارت کو ہتھیار بیچنے کی پابندی ختم کر دی ہے۔ لہٰذا بھارت ان ممالک سے کم قیمت پر ہتھیار خرید کر اپنے اسلحہ خانے بھر رہا ہے۔ دوسرا بھارت نے امریکہ ، اہل مغرب اور جاپان سے سول اینڈ ملٹری نیوکلیئر ٹیکنالوجی بھی حاصل کی ہے۔ امریکہ ہتھیار بنانے کی ٹیکنالوجی بھی بھارت ٹرانسفر کر رہا ہے جس سے بھارت خاطر خواہ فیض یاب ہو رہا ہے۔ بھارت نیو کلیئر سپلائر زگروپ کا ممبر بننے کی شدید خواہش رکھتا ہے۔ اس کیلئے وہ کئی سالوں سے کوشش بھی کر رہا ہے مگر تاحال کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔ اب امریکی مدد سے یقینا وہ یہ اعزاز بھی حاصل کر لیگا۔ بھارت نے آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ اب امریکہ بھارت دوستی نے امریکہ کو نہ صرف پاکستان سے دور کر دیا ہے بلکہ کسی حد تک پاکستان کا مخالف بھی بنا دیا ہے۔ ان حالات میں بھارت پاکستان کو کافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اور یہ بھارت کی دیرینہ خواہش بھی ہے۔
دوسری طرف امریکہ بھی بھارت سے بہت کچھ حاصل کرنے کا خواہشمند ہے۔ ان مقاصد میں سب سے پہلی بات روس بھارت اتحاد ہے جو 1948سے چلا آرہا ہے۔ بھارتی فوج کے 70فیصد ہتھیار ساختہ روس ہیں۔ اسی لئے بھارت روس فوجی دوستی قدرتی امر ہے۔جسے امریکہ پسند نہیں کرتا۔ بھارت اب روس سے S.400 ٹرائمف میزائل سسٹم، نیو کلیئر سب میرینز اور کچھ دیگر ہتھیار خریدنے کا خواہشمند ہے جسکا امریکہ سخت مخالف ہے۔ امریکہ دوستی کا پہلا مقصد بھارت کو روسی دوستی اور روسی ہتھیاروں کی خرید سے ہٹانا ہے۔ دوسرا چین جس انداز میں معاشی اور عسکری لحاظ سے ترقی کر رہا ہے امریکہ کو مختلف میدانوں میں چیلنج کر رہا ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جلد یا بدیر چین اور امریکہ کا مقابلہ ہوگا خصوصاً بحر ہند اور سائوتھ چائنا سی میں۔ یہاں امریکہ بھارت کی مدد چاہتا ہے اسی لئے امریکہ بھارت عسکری معاہدے ہوئے۔ ساتھ ہی بھارت کی عسکری بندر گاہیں اور ہوائی اڈے کافی جدید ہیں۔ لڑائی کی صورت میں امریکہ یہ اڈے بلاروک ٹوک استعمال کرنا چاہتا ہے۔ سب سے اہم بات بھارت کی آؓبادی ہے۔ یہ سوا بلین آبادی والا ملک دنیا کی اہم مارکیٹ ہے جسے امریکہ چھوڑنا نہیں چاہتا۔ یہ مارکیٹ دوستی کے ذریعے ہی قابو آسکتی ہے دشمنی کے ذریعے نہیں۔ مزید یہ کہ امریکہ بھارت کے ذریعے چین ،روس، وسط ایشائی ریاستوں اور جنوبی ایشا پر اپنا کنٹرول چاہتا ہے اسی لئے بھارت کو افغانستان میں بھی اہم کردار دیا ہے جہاں امریکی فوجیں مستقل طور پر مقیم رہیں گی۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کو استعمال کر رہے ہیں۔ دیکھیں کون کامیاب ہوتا ہے۔
بہرحال مقاصد جو بھی ہوں۔ بھارت امریکہ گٹھ جوڑ کسی طرح بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ بھارت پاکستان کو زک پہنچانے سے کبھی باز نہیں آئیگا اور یہ کام وہ امریکہ سے کرائیگا ۔وزیرستان اور بلوچستان میں روزانہ ہمارے جوانوں اور بے گناہ شہریوں کی شہادتیں، پشتون تحریک کی مدد، بھارتی چیف کی دھمکی اور ایرانی فوجی پریڈ پر حملہ امریکی شرارت کی تازہ مثالیں ہیں۔ان کے مزید بڑھنے کا خدشہ ہے ۔ لہٰذا پاکستان کو امریکہ کے شر سے ہوشیار رہنا چاہیے۔