کارگہہ حیات میں خیر و شر کی قوتیں ازل سے برسرپیکار ہیں۔ خیر خالص توفیق الٰہی سے شر سے نبردآزما ہے جبکہ شر شیطان کا نمائندہ ہے۔ جس کا کام ہی تخریب‘ خرابی‘ پریشانی‘ دکھ اور تکلیف پیدا کرنا ہے۔ خیر ہمیشہ سے تعمیر‘ نیکی‘ سچائی‘ عدل‘ ایمانداری اور تمام تر اعلیٰ ترین اخلاقی اقدار کا امین ہے۔ باطل شر کے روپ میں زندگی کو حد درجہ پریشان‘ تکلیف دہ اور ناقابل عمل بنانے پر تلا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خیر کے نمائندگان سے ہمیشہ شر مقابلہ پر تیار ہو جاتا ہے۔ بالآخر فتح خیر ہی کی ہوتی ہے۔
میدان کربلا میں جس بہادری‘ جرات‘ ہمت اولالعزمی اور بلا کے اعتماد کے ساتھ امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ نے اپنی اور اپنے پورے خانوادے سمیت اپنے بہی خواہوں اور دوستوں کی جو قربانی پورے خلوص سے بارگاہ الٰہی میں پیش کی اس رہتی دنیا تک دین اسلام کا پرچم بلند کر دیا۔ یہ عظیم قربانی صرف تعلیمات اسلام کو پاکیزگی و استقلال سے ہمکنار کرنے کے لئے تھی جبکہ یزید نے خیر کو نیچا دکھانے کی کوشش کی اور جھوٹ پر سچ کی بیعت چاہی مگر خدائے لم یزل نے سچ‘ عدل ‘ نیکی اور اسلام کو ایسی قوت عطا فرمادی کہ میدان کربلا میں اسلام اپنی پوری تابانی کے ساتھ جلوہ گر ہو گیا۔
قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
یزید حضرت امام حسینؓ سے بیعت کا طالب تھا جبکہ اس کے موقع پرست حواری اس بات کے متمنی تھے کہ ان کا عیش و طرب کا چلن اسلام میں احکامات کی شکل میں داخل ہو جائے۔ ایسے گھمبیر‘ تاریک اور پریشان کن حالات میں حضرت امام حسینؓ نے تمام صعوبتوں‘ پریشانیوں اور قربانیوں کو اپنے ذہن و خیال میں تازہ رکھتے ہوئے احیائے اسلام کے لئے ہر قسم کی تگ و دو کا بیڑہ اٹھایا۔ ۱۰ محرم کو بظاہر تو یزید کامیاب ہو گیا۔ حضرت امام حسینؓ نے اپنے ساتھیوں سمیت شہادت کا مقام و مرتبہ پا کر ابدی حیات سے ہمکناری اختیار فرما لی لیکن یزید ہمیشہ کیلئے نہ صرف فنا ہو گیا بلکہ وہ اور اس کے تمام حواری بھی اپنے تمام تر نظریات و افکار و اعمال سمیت ختم ہو گئے۔ باطل کی بیعت سے اسلام میں جو بدعت کا چلن پیدا ہونا تھا وہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو گیا۔ بے شک اﷲ پاک نے اپنے نیک بندوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ دنیا کی حکومت انہیں عطا کرے گا۔
حضرت امام حسینؓ جنہوں نے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی خصوصی توجہ‘ نگرانی اور محبت میں تربیت پائی تھی نے اپنے نانا کی تمام تر محبتوں کا حق میدان کربلا میں اپنے اور اپنے ساتھیوں کی جانوں کا نذرانہ اسلام کیلئے پیش کر کے ادا کر دیا۔ حضرت امام حسینؓ کی چشم بینا میں زندگی اور موت کی اصل حقیقت بہت واضح تھی۔ اسلام اور اعلیٰ ترین نظریات کی حفاظت کیلئے جو اقدام آپؓ نے اٹھایا اس کے آنے والے زمانوں میں ہونے والے اثرات کا بھی آپؓ کو کماحقہ پتہ تھا۔ اس لئے آپؓ آخری لمحوں تک یزید کی فوج کو اپنی بار بار پہچان کراتے رہے۔ بہت مرتبہ فرمایا کہ میں حسینؓ ہوں ‘ آخری نبی کا نواسہ‘ علیٰؓ کا بیٹا‘ فاطمہؓ کا لخت جگر لیکن وہ ناعاقبت اندیش آپؓ کی شان سے ناواقف ہی رہے۔ شیطان کا نمائندہ بن کر انہوں نے چراغ مصطفوی کو بجھانے کی بظاہر اپنی کوشش تو بھرپور کی مگر وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے۔ آپؓ اپنی عظیم قربانی سمیت ہمیشہ کیلئے امر ہو گئے۔ آج یزید کا نام لینے والا کوئی نہیں۔ ہر طرف حسینؓ ہی حسینؓ ہے۔