روایت ہے کہ حضور اکرم کئی دنوں سے دعائیں مانگ رہے تھے کہ یا اللہ دین ا سلام کو عمر بن خطاب سے عزت دے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپکی دعائیں قبول اور آپکی مراد پوری کی ۔ حضرت جبرئیل علیہ اسلام آپ کی خدمت میں مبارک کیلئے حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ اس وقت آسمان و الے ایک دوسرے کو حضرت عمرؓکے اسلام لانے کی خوشخبر ی سنا رہے ہیں ۔
حضور اکرم کے اس یار اور غلام نے خراسان و مکر ان تک اسلامی سلطنت کا پرچم لہرایا اور بیت المال کا قیام جیل اور پولیس کے محکمے ، فوجی دفاتر کا قیام ، مردم شماری نہروں کی تعمیر و کھدائی ، کئی نئے شہر آباد کیے جو بہترین منتظم کی پہچان کے لئے کافی ہے ۔
حضرت عمر ؓ کی ذہانت ، فطانت اور عدالت کا معیار دیکھیں کہ آپ جب کسی صوبہ /ریاست میں کسی کو گورنر /امیر مقرر کرتے تو پہلے اس کی امانت و دیانت اور عدالت کے معاملے میںلوگوں کے ساتھ معاملات کے بارے میں خوب تحقیق کرتے اور مقرر کرنے کے بعد عوام کو حکم تھا کہ ان حکمرانوں کے بارے میں کوئی شکایت ہو تو بلا توقف مجھے مطلع کریں اور اس پر انکی گرفت بھی کرتے ۔ حد تویہ ہے کہ حکمران مقرر کرتے وقت انہیں تحریر ی ہدایت یعنی بار یک کپڑا نہ پہننا ، چھنے ہوئے آٹے کی کی روٹی نہ کھانا ، اپنے مکان کا دروازہ بند نہ کر نا ، کوئی دربان نہ رکھنا تا کہ حاجتمند بلاروک ٹوک حاکم تک پہنچ سکیں ۔
مجھے حیر انگی ہوتی ہے کہ ہمارے آج کے حکمران کہنے کو تو بڑے بڑے عوامی خدمت کے دعوے کرتے ہیں لیکن عملی طور پر ان سنہری اصولوں سے کوسوں دور ہیں کیونکہ وہ ان تمام مراتب پر ایسے حکمران تعینات کرتے ہیں جنکا معیار صرف انکی ذاتی وفاداری بشرطہ استواری ہو تا ہے ۔ نہ تو انکی کارگردگی جانچی جاتی ہے نہ انکے رہن ہن لباس ، خوراک کی خواہ انکے منصب کے معیار سے کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو کبھی خاطر میں نہیں لائی جاتی ۔ جس طرح اعلیٰ حکمرانوں تک عام لوگوں کی رسائی ایک خواہش کے سوا کچھ نہیں اس طرح ادارہ جاتی حکمرانوں تک رسائی بھی تقریباً نہ ممکن ہی ہے اگر کچھ تگ ودو کے بعد کوئی سائل کامیاب ہو بھی جائے تو ماتحت لوگ جو اپنے آ پ کو بھی اعلیٰ اور حکمرانوں کی طرح ہر قسم کے احتساب سے مبرا سمجھتے ہیں اس سائل کی دادرسی بجائے اسے اتنا تھکا دیتے ہیں کہ وہ کمزور ترین ایمان کی طرح ان لوگوں کو دل سے برا سمجھنے لگتا ہے جہاں تک یادر کھنے کا معاملہ ہے تو ہم سب اپنے کئے گئے عہد بھلانے کے عادی ہو چکے ہیں مسلمان ہونے کا پہلا عہددینی فرائض کی ادائیگی ہوتی ہے جنہیں ہم بار بار یادھانیوں کے با وجود بھی نبھانے سے قاصر رہتے ہیں تو چہ جائیکہ کسی چور ، لٹیرے کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت واپس لانے ، چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے جیسے و عدے یاد رکھنا ضروری نہیں بلکہ 25سال کے دور اقتدار کے بعد بھی خانیوال ، وہاڑی ، ملتان ، ڈی جی خان ، راجن پور ، کوسیا لکوٹ ، لاہور ، گوجرانوالہ کے بر ا بر لانے کے لئے بھی اگلے پانچ سال کے لئے دوبارہ حق حکمرانی سے مشروط جو ہم جیسے پسماندہ علاقے کے لوگوں کو جگانے کے لئے کافی ہے کیونکہ ہمیں بھی یاد نہیں رہتا ۔ ہم اس بد نصیب معاشرے کا حصہ ہیں جہاں حسن کا معیار گورا رنگ اور عقل کا معیار انگریزی زبان ہے اس لیے انتہائی افسوس کے ساتھ قارئین کی توجہ کل ہی پاکستان کے ایوان بالا سے انتخابی اصلاحات کے بل کی منظوری کیطرف دلانا چاہوں گا جسکی رو سے کسی بھی عدالت سے سزا یافتہ شخص اپنی سیاسی جماعت کی سربراہی کر سکتا ہے ۔
یہ بل جناب اعتزاز احسن ، رضا بانی جیسے بین الاقوامی شہر ت یافتہ آئینی اور قانونی ماہرین اورجید علماءکرام کی موجودگی میں پاس ہو اہے جو یقینا ترقی یافتہ قوموں کو پاکستان کے قانون سازوں کی عزت و توقیر کے بارے میں اپنی آراپر نظر ثانی کی دعوت ضرور دے گا ۔ آخر میں میر ی استد عا ہے کہ ہمیں حقیقت پسند انہ سوچ اپنا نے کی ضرورت ہے جو ہمیں مہذب قوموںکے مقابلے میں لانے میں ممد د معاون ثابت ہو گی ۔