مردم شماری پر ملک میں ابتدائی نتائج کے بعد سندھ کے شہری علاقوں پر ایم کیو ایم پاکستان اور مہاجر سیاست کرنے والی جماعتوں اور پی پی پی کے دیہی علاقوں پر تحفظات ہیں ۔ کے پی کے نے بھی اس پر سخت اعتراض کیا ہے جبکہ پنجاب میں اعدادو شمار میں حیرت انگیز اضافے پر ملک بھر میں تحفظات کی لہر دوڑ گئی ہے۔ کراچی میں مردم شماری پر سب سے زیادہ تحفظات پائے جاتے ہیں ۔ کیونکہ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر ادوار میں کراچی کی آبادی جان بوجھ کر کم کی گئی جسکا مقصد لسانیت اور شہری علاقوں کے بجائے دیہی علاقوں کو نوازنا تھا۔ مردم شماری کے حساب سے فنڈز، ترقیاتی فنڈز ، ملازمتوں میں کم حصہ اور ہر جگہ استحصال کا سامنا نتیجتاً ہوتا ہے۔ اس مرتبہ کراچی کے عوام انتہائی باشعور تھے۔ انہوں نے درست مردم شماری کے علاوہ بہت سارے معاملات پر نظر رکھی۔ اسکے باوجود مردم شماری کی ٹرانسپیرنسی نہیں ہوسکی۔ رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی نے اپنے حلقے کے ایک بلاک کا دعوی کیا ہے کہ وہاں مردم شماری نہیں کی گئی وہاں کے لوگ انتظار اور شکایتیں کرتے رہ گئے لیکن انکی مردم شماری نہیں ہوئی یہ ایک بہت بڑی بات ہے جس پر مردم شماری پر سوالیہ نشان لگ سکتے ہیں ۔ یہ بات ثبوتوں کے ساتھ ایم کیو ایم پاکستان کے مردم شماری کے حوالے سے پروگرام مکالمہ میں انہوں نے سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد، سابق سینیٹر جاوید جبار، ماہرین شماریار ت ، قیصر بنگالی، ڈاکٹر فاروق ستار ، میئر کراچی وسیم اختر، ڈپٹی میئر ارشد وہرہ، نامور بزرگ سیاست داں آزاد بن حیدر، سابق چیف سیکریٹری بیوروکریٹ رکن سندھ اسمبلی سردار احمد کی موجودگی میں کہی۔ آخری مردم شماری میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ 28لاکھ سے کم کرکے 98لاکھ کردی گئی تھی۔ اسوقت کراچی کے 7ہزار بلاکس بنائے گئے تھے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کا یہ اعتراض درست ہے کہ اسوقت 14500بلاکس شو کئے گئے ہیں ۔ اسکے اعتبار سے بھی آبادی پونے تین کروڑ کے لگ بھگ بنتی ہے ۔ migrationکے حوالے سے تعصب بھری کراچی کے ساتھ حکمت عملی رکھی گئی۔ انہیں مائنس کرکے کراچی کی اصل شکل بھی خراب کی گئی۔ فاروق ستار کا یہ کہنا کہ ہم تمام لسانی اکائیوں کو گنوانا چاہتے ہیں انکا بھی حق مارا جاتا ہے جب گنتی کم کی جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک کروڑ 30لاکھ لوگ غائب کردیئے گئے ہیں۔ ماہرین شماریات نے بھی تحفظات کا اظہار کیا جبکہ سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا کہ فوج کی نگرانی میں مردم شماری کا دعویٰ غلط ہے فوج سیکیورٹی سپورٹ دیتی ہے وہ اس عمل کا حصہ نہیں ہوتی یہ کام شماریات والوں کا ہے ۔ سندھ کے شہری علاقوں کی بے چینی بے جا نہیں ۔ اسکا تدارک نہ کیا گیا تو احساس محرومی میں شدت یقینی ہے۔ اب ہم اس طرف آتے ہیں کہ مردم شماری کا بنیادی معاملہ دنیا بھر میں کیا ہے ۔آج کے اس ترقی یافتہ دور میں کوئی جدید ریاست یہ جانے بغیر قومی ترقی اور فلاح کا کوئی منصوبہ بنا ہی نہیں سکتی کہ اس کے زیر نگین شہریوں کی کل تعداد کیا ہے۔ حالیہ مردم شماری کے ابتدائی نتائج کے مطابق ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی آبادی ایک کروڑ 49 لاکھ سے زائد ہے ،ان اعدادوشمارکو ماہرین اور سیاسی جماعتیں تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور عوام بھی اس بات سے اتفاق کرنے کو تیار نہیں کہ اتنے برسوں میں کیا سندھ کی آبادی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ، کیا پورے ملک سے لوگ نقل مکانی کر کے کراچی نہیں آئے ،کیا لوگوں نے کاروبار کی تلاش کے لئے کراچی کا رخ نہیں کیا،جبکہ Pakistan Bureau of Statisticsکے نتائج کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 207.774 Millionہے اور growth rateجو کہ سالانہ2.4%دورانیہ1998-2017تک ہر سال بڑھ رہا ہے تو آبادی میں اضافہ کیسے نہ ہوگا،1981میں پاکستان کی کل آبادی 84.25 Million تھی،اور 1998 میں بڑھ کر 132.35 Millionہوگئی تھی ،جبکہ سندھ کی کل آبادی 1981 میں9.03 million 1 تھی، جو کہ 1998 میں 30.44 million تک پہنچ گئی تھی اور بڑھ کر 2017 میں 47.89 تک ہو گئی ہے، اور جہاں تک بات آتی ہے Urban Shareکی جو تمام صوبے
ملک کی معیشت کو فراہم کرتی ہے تو اس میں بھی سندھ کے share کا فیصد سب سے زیادہ ہے جیسا کہ خیبر پختونخواہ 18.77% ،پنجاب 36.71% ،بلوچستان 27.55%جبکہ سندھ کی شرح52.02% ہے جو کہ تمام صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔2017کی مردم شماری کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے دوسرے بڑے شہرلاہور کی آبادی بھی لگ بھگ کراچی کے قریب پہنچ چکی ہے،کراچی کی آبادی ایک کروڑ49لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ لاہور کی آبادی ایک کروڑ11لاکھ ہے۔اگر 1998کی آبادی سے موازنہ کیا جائے تو کراچی کی آبادی میںتقریبا60%اضافہ ہوا ہے جبکہ لاہور کی آبادی میں تقریبا116%اضافہ ہوا ہے۔جب لاہور میں ان انیس برس میں اتنا فرق آسکتا ہے تو کراچی جیسے میٹروپولیٹن شہر میں فرق نہ آنا تو ایک نامناسب بات ہے اور جس کو ماننا بھی گوارا نہیں۔ ماہرین کے مطابق آبادی میں اضافے کے یہ چار عناصر ہیں جیسا کہ شرح پیدائش، شرح اموات، طویل عمری اور اندرونی نقل مکانی انہی عناصر کی بنیاد پر آبادی کا حساب لگایا جاتا تھا اور تو اور اس سے قبل آبادی کا اندازہ گذشتہ مردم شماری سے لگایا جاتا تھا جس میں غلطیوں کے چانسز حد سے زیادہ ہوتے ہیں۔ حکومت سندھ اور ایم کیو ایم پاکستان نے تو مردم شماری کے ابتدائی نتائج کو ہی مسترد کر دیا اس ضمن میں موقف یہ ہے کہ مردم شماری میںسندھ کی آبادی کو کم ظاہر کرنا وفاق کی سازش ہے۔سینیئرصوبائی وزیر نثارکھوڑو کاکہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے قومی مالیاتی ایوارڈمیں حصہ نہ بڑھانے کے لئے سندھ کی آبادی کو کم ظاہر کیا ہے ۔جبکہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے ان نتائج کو مسترد کر دیا ہے،پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستّار کا دعویٰ ہے کہ کراچی کی آبادی 3 کروڑ سے زیادہ ہے ، انھوں نے واضح لفظوں
میں کہا ہے کہ یہ صرف مہاجروں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ سندھ میں رہنے والی تمام قومیتوں کا مسئلہ ہے، جب انھیں کم گنا جائے گا تو اسمبلی کی نشستیں میں بھی ان کا کوئی کردار نہیں رہے گا اور نہ ہی سندھ میں رہنے والی قوموںکو کسی قسم کے نصاب میں شامل کیا جائے گا۔ کراچی کاجہاں تک تعلق ہے یہ ملک معاشی حب ہے جس کااعتراف وزیر اعظم خاقان عباسی نے بھی کیا اور کہاکہ کراچی چلتا ہے تو پاکستان چلتا ہے ۔ پھر مردم شماری میں اس شہر کے ساتھ رواںں سلوک دعووں اور سچائی کے برخلاف ہے جس پر ایکشن اور درست مردم شماری انتہائی ضروری ہے ۔