دھرنے والوں کی ہٹ دھرمی اور حکومت کی بے جا ڈھیل کے باعث نہ صرف یہ کہ پوری دنیا میں پاکستان ایک تماشا بن کر رہ گیا ہے بلکہ حکومت کی ساکھ بھی متاثر ہو رہی ہے۔ جو حکومت اپنے دارالحکومت میں اپنی رٹ قائم نہیں کر سکتی۔ وہ پورے ملک میں قانون پر کیونکر عملدرآمد کروا سکتی ہے۔ ڈیڑھ ماہ ہو گیا ہے پاکستان کے کیپٹل پر ”دہشت گردوں“ نے قبضہ جما رکھا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ دونوں حضرات نے عورتوں اور بچوں کو بطور ڈھال اپنے گرد جمع کر رکھا ہے۔ اس کے باوجود حکومت کو اپنی رٹ قائم کروانے کیلئے کوئی پر امن اور موثر طریقہ ضرور بروئے کار لانا ہو گا۔ معیشت کا بیڑہ غرق ہو گیا ہے۔ غیر ملکی سربراہان کے دورے ملتوی ہو رہے ہیں۔ یہ سلسلہ آخر کب تک جاری رہے گا‘ مذاکرات کر کے دیکھ لیتے۔ دونوں جماعتیں ”میں نہ مانوں“ کی پالیسی پر گامزن ہیں.... اب حکومت کو چاہئیے کہ فوری طور پر دونوں لیڈروں کو گرفتار کر کے پولیس کی معیت میں لاہور بھیج دے اور گھروں میں نظر بند کر دے۔ اس کارروائی میں نہ لاٹھی چارج اور شیلنگ کی ضرورت پڑیگی۔ نہ کوئی دھرنے والے کارکنوں میں سے زخمی ہو گیا۔ زیادہ سے زیادہ لاہور اور دیگر شہروں میں کچھ مظاہرے ہونگے ریلیاں نکلیں گی۔ احتجاج ہو گا اور بس‘ احتجاج تو اب بھی ہو ہی رہا ہے۔ لیکن دونوں حضرات کی مسلسل تقریروں، الزام تراشیوں کے اثرات آہستہ آہستہ عوام کے ذہنوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔ حکومت کیوں سنجیدگی سے ان باتوں کا نوٹس نہیں لے رہی؟ کیا حکومت بھی مڈٹرم الیکشن کروانا چاہتی ہے؟ ریڈ زون کو جس قدر جلد ہو سکے۔ خالی کروایا جائے‘ ورنہ عمران اور قادری واقعی حکومت کا دھڑن تختہ کر دینگے۔ حکومت الزام کا جواب الزام اور گالی کا جواب گالی سے دینے کی پالیسی سے ترک کرے۔ وائٹ پیپر جاری کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ اب کوئی عملی اقدام اٹھانا پڑیگا۔ عمران خان کو صبح کے وقت ”بنی گالا“ سے گرفتار کیا جائے کیونکہ اس وقت پی ٹی آئی کے کارکن بھی ڈی چوک میں موجود نہیں ہوتے۔ڈی چوک کو پولیس کے حصار میں دیدیا جائے۔ اسی دوران طاہر القادری کو بھی پولیس گرفتار کرے‘ اگر کارکن مشتعل ہوں تو ان کو پرامن طریقے سے قابو کیا جائے۔ گرفتاری کے بعد عوامی تحریک کے دھرنے کے شرکاءکو شاہراہ دستور سے نکل جانے کا حکم دیا جائے۔ اب حکومت کے پاس اسکے سوا کوئی چارہ نہیں۔ حکومت کی ”امن پسندی“ نے عمران خان کو پاکستان کا سب سے بڑا لیڈر بنا دیا ہے۔ ڈیڑھ ماہ سے مسلسل چوبیس گھنٹے جس شخص کو لائیو کوریج مل رہی ہو۔ وہ کیوں مقبول و معروف نہ ہواور اب اگر مسلم لےگ ن کی حکومت بچ جائے تو سب سے پہلے بلدیاتی الیکشن کروانے کا اعلان کرے اور چھ ماہ کے اندر بلدیاتی الیکشن کروا دئیے جائیں۔ دوسرے نمبر پر جو سب سے اہم کام ہے.... وزراءاور اراکین اسمبلی کے قافلوں کے گزرنے کیلئے ”روٹ“ لگانا بند کر دیں۔ اور خدارا وی آئی پی کلچر کے خاتمے کی سنجیدہ کوششیں کرے۔ اسکے ساتھ ساتھ تعلیمی بجٹ میں کٹوتی کی بجائے اضافہ کیا جائے۔ اساتذہ کی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے خاطر خواہ اضافہ کیا جائے اور ”صحافی کالونی“ کی طرز پر ”اساتذہ کالونی“ بنائی جائے تاکہ اساتذہ بھی عزت و آبرو کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں علاوہ ازیں الطاف حسین کے مطالبے پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اور مزید صوبے بنائے جائیں تاکہ انتظامی امور بطریقہ احسن ادا کئے جا سکیں۔ پیپلز پارٹی سندھ میں اسلئے مزید صوبے بنانے کی مخالفت کر رہی ہے کہ اس سے سندھ میں جاگیرداری نظام کے خاتمے کی بنیاد پڑ جائیگی۔ اور یہ بات سندھی وڈیرے کسی صورت برداشت نہیں کر سکتے.... مسلم لےگ ن کی حکومت کو اپنی ٹرم پوری کرنے کےلئے بہت سے تلخ اور سخت فیصلے کرنا ہونگے بصورت دیگر لوگ کہیں گے.... وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024