وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا ہر حال میں حل ہونا چاہئے ۔کشمیریوں کی کئی نسلیں تشدد کا شکار ہیں، کشمیری خواتین کئی دہائیوں سے مشکلات سے دوچار ہیں۔ کشمیری عوام کو انکی خواہش کے مطابق حق خود ارادیت دلانا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔ دہشت گردوں کیخلاف نئی سوچ کی ضرورت ہے، دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پر عزم ہیں، دہشت گردی عالمی خطرہ ہے، اس کیلئے مل کر کام کرنا ہو گا۔ دہشت گردوں کیخلاف آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے بہت سے لوگ بے گھر ہوئے، ہمیں ایک دوسرے کے احساسات اور جذبات کا خیال رکھنا چاہئے، دہشت گردی کی وجہ سے ہزاروں پاکستانی شہید ہوئے، 13 سالہ جنگ میں پاکستان نے بہت سی قربانیاں دیں، دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پچاس ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہوچکے ہیں۔ دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کو معاشی نقصان ہوا۔ پاکستان ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات پر یقین رکھتا ہے، پاکستان افغانستان کے ساتھ مضبوط تعلقات کا خواہاں ہے۔ فلسطین میں بے گناہوں کے قتل کی مذمت کرتے ہیں، غزہ کی ناکہ بندی ہر حال میں ملتوی ہونی چاہئے، فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثے بالکل محفوظ ہیں، پاکستان جوہری سلامتی اور اعلیٰ سکیورٹی کے معاہدے پر کاربند ہے، سکیورٹی کونسل میں کوئی نیا مستقل ممبر نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان اقوام متحدہ کے امن مشن میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس میں پاکستانی نوجوانوں نے قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان سب سے زیادہ اقوام متحدہ کے مشن میں امن دستے فراہم کر رہا ہے۔ توانائی کے بحران کیلئے پاکستان کو سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی چاہئے۔ پاکستان کو نیوکلیئر سپلائر گروپ کا رکن بنایا جائے۔ مسئلہ کشمیر پر تب تک پردہ نہیں ڈال سکتے جب تک کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہ ہو جائے۔
عالمی برادری کو اپنی مشکلات‘ مسائل اور پالیسیوں سے آگاہ کرنے کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی بہترین فورم ہے۔ اس کو پاکستانی حکمرانوں نے عموماً مصلحتوں کی نذر کیا۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جس جرأت اظہار کی ضرورت تھی‘ قوم کو اسکی تمنا ہی رہی۔ 1988ء کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی مرکز میں تین تین بار اقتدار میں آئیں‘ درمیان میں مشرف کا پونے نو سال پر مبنی فوجی اور نیم جمہوری دور بھی رہا‘ ان 26 برسوں میں حکمران مسئلہ کشمیر کو نظرانداز کرتے رہے۔ مشرف نے تو حد کردی‘ وہ مسئلہ کشمیر پر نئے سے نیا فارمولا لاتے رہے۔ اٹوٹ انگ کے مؤقف پر قائم بھارتی حکومتوں نے انکی ایک نہ سنی۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں مسئلہ کشمیر کو سائیڈ لائن کرکے بھارت کے ساتھ تعلقات‘ تجارت اور دوستی کیلئے کوشاں رہیں۔ مسئلہ کشمیر کا سرسری تذکرہ کیا جاتا رہا‘ اس اہم ایشو پر غیرسنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ کشمیر کمیٹی کی صدارت کو مراعات میں شامل کرکے اس کمیٹی کا تاج مولانا فضل الرحمان کے سر سجایا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ میں 1971ء میں دھواں دھار تقریر کی۔ قوم ایسی تقریر کی خواہش ہی کرتی رہی۔ گزشتہ سال میاں نوازشریف انہی دنوں نیویارک گئے تو انہوں نے اپنی تقریر میں مسئلہ کشمیر کا ذکر تو کیا لیکن اس میں زیادہ زور نہیں تھا۔ وہ شاید اپنے بھارتی ہم منصب منموہن سنگھ کے ساتھ ملاقات کے زیادہ ہی متمنی تھی۔ بھارتی سفارتی حلقے اس ملاقات سے انکار کرتے رہے تاہم بالآخر نوازشریف کی آرزو پوری ہو گئی۔ اب بھی بھارتی حکومت کی طرف سے نواز مودی ملاقات سے انکار کیا جارہا تھا۔ چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں کہ میاں نوازشریف کو پھر گزشتہ سال کی طرح اب بھی بھارتی وزیراعظم شرف ملاقات بخشیں گے۔ پاکستان میں ماضی کے تناظر میں کہا جا رہا تھا کہ نوازشریف کشمیر کا سرسری ذکر کرینگے۔
وزیراعظم نوازشریف نے تجزیہ نگاروں‘ سیاسی حریفوں اور حلیفوں کے اندازے غلط ثابت کر دیئے۔ انہوں نے پاکستانی عوام کی امنگوں اور خواہشات کے عین مطابق تقریباً تمام متعلقہ موضوعات پر اظہار خیال کیا۔ گو نوازشریف کی تقریر میں ذوالفقار علی بھٹو جیسی گھن گرج کا فقدان تھا لیکن جو بات بھی کی‘ مدلل اور بلاخوف کی۔ مسئلہ کشمیر پر جو بھی کہا‘ بھارت کا اس پر مشتعل ہونا فطری امر ہے۔ تاہم پاکستانی وزیراعظم کم ازکم اس مرتبہ مصلحتوں سے بالاتر نظر آئے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو کچھ ممالک غیرمحفوظ قرار دے رہے ہیں‘ اسکی وزیراعظم نے وضاحت کر دی۔ غزہ میں فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی مذمت کی گئی۔ عالمی برادری کو پاکستان کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ اقوام عالم کی خواہشات اور ضرورت کے مطابق امن فوج میں پاکستان کو ترجیح دی جاتی ہے۔ پاکستان کی افواج نہ صرف عالمی امن کیلئے اپنی جان کے نذرانے پیش کر رہی ہے‘ بلکہ پاکستان کے اندر دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اسکے پانچ ہزار سپوت شہید ہوئے اور 50 ہزار عام پاکستانی بھی اس جنگ کا ایندھن بن گئے۔ اس تناظر میں میاں نوازشریف نے عالمی برادری کو دہشت گردی کیخلاف نئی سوچ اپنانے کا بجا مشورہ دیا ہے۔ آج پاک فوج جو جنگ لڑ رہی ہے‘ بلاشبہ یہ پاکستان کی جنگ ہے تاہم اس نے سانحہ نائن الیون سے جنم لیا اور آج دنیا کے امن کا دارومدار اسی جنگ پر ہے۔ انسانی قربانیوں کا تو کوئی متبادل اور مداوا ممکن نہیں‘ انفراسٹرکچر کی تباہی کی تعمیر البتہ عالمی برادری کی مدد سے ممکن ہے۔
کچھ حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ نوازشریف نے بھارتی آبی جارحیت کی بات نہیں کی۔ اس پر بات ہو جاتی تو بہتر تھا تاہم وزیراعظم نے سکیورٹی کونسل میں مستقل ممبر کی مخالفت کرکے بھارت اور اسکے حامیوں کو پریشان کر دیا۔ کسی کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ وزیراعظم اس مسئلہ کو اٹھائیں گے۔ عالمی برادری کو باور کرانے کی ضرورت ہے کہ اگر سلامتی کونسل میں کسی ممبر کا اضافہ ہو سکتا ہے تو اس کا واحد اور پہلا حقدار پاکستان ہے۔ یہ 58 اسلامی ممالک کی واحد ایٹمی قوت اور اس نے کبھی کسی ملک کیخلاف جارحیت کا ارتکاب نہیں کیا۔ یہ عموماً دہشت گردی کا شکار اور بھارت کے مظالم کا نشانہ رہا ہے۔ بھارت کے اندر علیحدگی کی درجنوں تحریکیں چل رہی ہیں۔ کشمیر کی طرح کئی علاقوں میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی کی جاتی ہے۔ پاکستان سمیت اسکی ہر پڑوسی کے ساتھ پنگابازی ہے۔ پاکستان پر تین مرتبہ جارحیت کر چکا ہے‘ اس کا آئین سیکولرازم کا پرچارک ہے جبکہ ملک پر ہندو شدت پسندوں کا قبضہ ہے۔ ایسا ملک سلامتی کونسل کی رکنیت کیلئے کیسے کوالیفائی کر سکتا ہے۔
آج پاکستان توانائی کے بدترین بحران میں مبتلا ہے۔ پاکستان ایٹمی قوت بن چکا ہے‘ اس کا ایٹمی پروگرام کم از کم ڈیٹرنس کا حامل ہے۔ اب اسے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے جس کی عالمی سطح پر مخالفت کی جاتی ہے جبکہ یہی ٹیکنالوجی دشمن ملک بھارت کو کئی ممالک فراہم کر رہے ہیں۔ یہ عالمی برادری کا دہرا معیار ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے اسکی بجا نشاندہی کی ہے۔ پاکستان کے نقطہ نظر سے وزیراعظم نوازشریف کے خطاب کو دوٹوک قرار دیا جا سکتا ہے۔ آج پاکستان اندرونی سیاسی حالات‘ ضرب عضب‘ نقل مکانی کرنیوالے افراد اور سیلاب کی تباہیوں کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے بڑا اچھا فیصلہ کیا کہ اپنی تقریر کے صفحات سمیٹتے ہی پاکستان کیلئے روانہ ہو گئے۔ اس سے ان لوگوں کے تجزیے غلط ثابت ہوئے کہ نوازشریف مودی ملاقات کے خواہشمند ہیں۔ نوازشریف نے اوباما اور مودی سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا نہ درخواست کی‘ یہی غیرت مند قوم کے غیرت مند لیڈر ہونے کا تقاضا ہے۔ نواشریف کے خطاب پر بھارتی میڈیا آگ بگولا ہے جبکہ پاکستان میں ہر طبقے اور حلقے کی طرف سے اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بھارت کے مشتعل میڈیا کو پاکستانی میڈیا کو اسی کی زبان میں جواب دینا چاہیے۔ وزیراعظم نے جس طرح جنرل اسمبلی میں دوٹوک مؤقف اختیار کیا۔ اب جرأت مندانہ کردار بھی ادا کریں۔ مسئلہ کشمیر پر کشمیریوں اور پاکستانیوں کی خواہشات کے مطابق بات کی تو اب مصلحتوں کا شکار نہ ہوں۔ عالمی برادری پر اسکے حل کیلئے زور دیتے رہیں۔ اس ایشو پر عملی طور پر قوم کی ترجمانی کریں‘ بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل تک بھارت کے ساتھ تعلقات‘ تجارت اور دوستی کی خواہشات پر قابو رکھیں اور اسے پسندیدہ ملک قرار دینے کا معاملہ یہیں دفن کردیں۔ جنرل اسمبلی میں جرأت مندانہ خطاب کا یہی جرأت مندانہ فالواپ ہے
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024