حج دین اسلام کے پانچ ارکان کلمہ طیبہ، نماز، روزہ اور زکوۃ میں سے ہے۔ ہر صاحب استطاعت مرد اور عورت پر زندگی میں ایک بارحج فرض ہے۔ امام احمدؒ ، امام ابو حنیفہ ؒ، امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ استطاعت ہو تو حج فوراً واجب ہو جاتا ہے ،لیکن امام شافعی ؒکا خیال ہے کہ حج آخر عمر تک موخر کیا جا سکتا ہے۔
عازمین حج کی اکثریت مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پہنچ چکی ہے۔ایام حج میں دنیا کا سب سے بڑا اجتماع مکہ مکرمہ میں ہوتا ہے۔لاکھوں عازمین حج کی معاشرتی ضروریات اور مناسک کی ادائیگی کا کام احسن طور پر سرانجام دینے کیلئے سعودی حکومت خاصی کوششیں کرتی ہے۔ تمام تر انتظامات کے باوجود عاز مین حج کو بار ہا مختلف نوعیت کے مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اسی بناء پر کہا جاتا ہے کہ حج کا عزم کرنے سے لیکر اختتام حج تک زائرین کو حج کی ادائیگی میں آسانی کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعا گو رہنا چاہئیے۔عازمین حج، مناسک حج کی ادائیگی کی تربیت تو یقینا حاصل کرتے رہتے ہیں لیکن اکثر زائرین خانہ کعبہ کی تاریخ اور یہاں موجود اہم مقامات کی فضلیت سے آگاہ نہیں ہوتے۔ رب کریم نے مجھے بھی حج بیت اللہ اور کئی بار عمرہ ادا کرنے کی توفیق عطافرمائی۔ میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں اس مقدس زمین پر کچھ تحقیق کر سکوں۔اس حوالے سے میں نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر لکھی جانے والی مختلف تحقیقی کتابوںا ور سفر ناموں کا مطالعہ شروع کیا۔ یہ عمل ابھی جاری ہے۔ خانہ کعبہ کے حوالے سے کچھ تحقیقی حقائق پیش ہیں۔حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی نے عوارف المعارف میں لکھا ہے۔"جب اللہ تعالیٰ نے پانی پر (فرش زمین) بچھانے کا ارادہ فرمایا تو جس مقام پر آج بیت اللہ شریف ہے وہاں سے ایک جھاگ نمودار ہوئی اور اس نے ٹھوس شکل اختیار کر لی۔اسی بناء پر مکہ کی سرزمین کو" ام القری" کہا جاتا ہے۔ یہ زمین کے تخلیق کا آغاز ہے بعد میںباقی دنیا کی سطح زمین نمودار ہوئی۔
بیت اللہ کی تعمیر کے حوالے سے تاریخی کتب میں کہ کعبہ کو سب سے پہلے فرشتوں نے تعمیر کیا ۔ الازرقی اور النووی نے بھی فرشتوں کی تعمیر کعبہ کا ذکر کیا ہے ۔ البیھقی نے دلائل النبوۃ میں ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول پاکﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل علیہ السلام کو حضرت آدم ؑو حوا ؑکی طرف بھیجا اور انہیں کعبہ کی تعمیر کا حکم دیا۔حضرت آدم علیہ السلام نے کعبے کی تعمیر میں پانچ پہاڑوں یعنی لبنان ، طور زیتا ، طور سینائ، الجودی اور حراء کے پتھر استعمال کئے ۔کعبے کی بنیاد میں کوہ حراء کے پتھراستعمال کیے گئے ۔ حضرت آدم علیہ السلام کی تعمیر کے بعد انکے بیٹے حضرت شیث علیہ السلام نے بھی کعبے کی تعمیر ثانی کی۔
کعبہ کا تصور یا نام زبان پر آتے ہی ادب، احترام اورحضوری کی ایسی کیفیت ابھرتی ہے کہ جس کا بیاں الفاظ میں آسان نہیں۔روایت ہے کہ بیت اللہ پر اللہ تبارک تعالیٰ ہر وقت 120رحمتیں نازل فرماتے ہیں۔ 60رحمتوں پر ان کا حق ہے جو طواف کر رہے ہوتے ہیں، 40ان پر جو کسی دوسری عبادت میں مصروف ہیں اور 20رحمتیں انہیں مل رہی ہوتی ہیں جو صرف بیت اللہ کا دیدار کر رہے ہوتے ہیں۔
ابن سائب فرماتے ہیں کہ ایمان اور تصدیق قلبی سے کعبہ شریف کو دیکھنے سے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح موسم خزاں میں ہوا سے درختوں کے پتے جھڑتے ہیں۔سیدنا عبدا للہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس آدمی نے کعبہ شریف کا پچاس مرتبہ طواف کیا تو اللہ تعالیٰ اسے گناہوں سے اس طرح پاک کر دیتا ہے کہ گویا کہ وہ اسی دن پیدا ہوا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: جو شخص بیت اللہ شریف کی زیارت کو آیا اورپھر یہاں کسی سے جھگڑا، بد زبانی اور فساد نہ کیا تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف ہو جاتا ہے جس طرح ماں کے پیٹ سے گناہوں سے پاک پیدا ہوا تھا۔
کعبہ کے اطراف کی کیفیت کی ترجمانی لفظوں میں نہیں کی جا سکتی۔کبھی جلال و ہیبت کی کیفیت ہوتی ہے کہ دل کانپ کانپ جاتا ہے۔ آنکھ کو تاب نہیں کہ زیادہ دیر تک بیت اللہ پرجم سکے۔علماء اور محققین کہتے ہیں کہ بیت اللہ ہی وہ مقام ہے جس کے عین اوپر بیت المعمور یا مقام محمود ہے ۔بیت المعمور وہ جگہ ہے جہاں فرشتے طواف کرتے ہیں۔
صدیوں تک بیت اللہ کے گرد کوئی چار دیواری یا دروزہ نہ تھا۔مکہ مکرمہ جب ترک سلطنت کا حصہ بنا تو پہلی بار خانہ کعبہ کے ارد گرد چار دیواری اور اس احاطے میں داخلے کیلئے دروازہ بھی بنایا گیا۔ یہ دروازہ اسی راستے پر بنایا گیا جہاں سے حضرت عبد المطلب کعبہ کی جانب آیا کرتے تھے۔اس راستہ کا نام باب شیبہ رکھا گیا۔حضرت عبد المطلب کو سفید بالوں کی وجہ سے شیبہ کہا جاتا تھا۔نبی کریمﷺفتح مکہ کے موقع پر جس راستے سے بیت اللہ داخل ہوئے اس راستے پر بعد میںترکوں نے دروازہ لگا کر اسے باب فتح کا نام دے دیا۔بیت اللہ کے چاروں طرف سنگ مرمر کا فرش ہے، جسے مطاف کہتے ہیں۔ شمال مغربی دیوار کے سامنے ذرا قدرے جدا سفید سنگ مرمر کی ایک نیم گول دیوارکا احاطہEnclosure ہے یہ احاطہ حطیم کہلاتا ہے ۔اس دیوار کے اندر کی جگہ کو بھی کعبہ میں شمار کیا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ طواف کرتے ہوئے اسکے اندر داخل نہیں ہوتے بلکہ اسکے گرد ہو کر گزرتے ہیں ۔ یہ قطعہ الحجر یا (حجر اسمعیل )کے نام سے موسوم ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور آپ کی والدہ حضرت ھا جرہ علیہ السلام اسی احاطے میں خانہ کعبہ کے پرنالے کے نیچے دفن ہیں۔ یہ سنہری پرنالہ میزاب الرحمتہ کے نام سے موسوم ہے ۔ خانہ کعبہ کا حصہ ہونے کی وجہ سے فرض نماز کے وقت اسے خالی رکھا جاتا ہے۔ روایت ہے کہ جو شخص میزاب کے نیچے نماز پڑھتا ہے وہ گناہوں سے ایسا پاک صاف ہو جاتا ہے جیسا اس دن تھا جب اسکی ماں نے اسے جنا ہو (الازرقی)۔ایک صاحب عرفان کہہ رہے تھے کہ حطیم اولیائے کرام کی جائے عبادت ہے ۔یہ جگہ عبادت کیلئے ارفع و اعلیٰ ہے۔صاحب نظر کا کہنا ہے کہ یہاں ہر وقت ایک نہ ایک ولی یا صوفی بزرگ مصروف عبادت رہتا ہے۔دیوار کا وہ حصہ جو حجر اسود اور دروازے کے درمیان ہے ملتزم کہلاتا ہے ۔ طواف کرنیوالے دعا کرتے وقت اس دیوار سے لپٹ جاتے ہیں۔ اس نسبت سے اسے (الملتزم) یعنی چمٹنے کی جگہ کہا جاتا ہے ۔بیت اللہ کی دیوار کایہ حصہ تقریباً چھ فٹ ہے ۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضورؐ سے سنا ہے کہ اس جگہ جو بھی دعا مانگی جائے وہ قبول ہو جاتی ہے۔ تاریخی کتابوں میں یہ بھی ذکر ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام نے بھی طواف سے فارغ ہو کر اس جگہ دعا کی تھی۔
علماء نے لکھا ہے کہ مکہ مکرمہ میں پندرہ مقامات ایسے ہیںجہاں دعا قبول ہوتی ہے۔ ان میں سات مقامات بیت اللہ اور مطاف میں تین مقامات صفا اور مروہ میں اور پانچ جگہیں وہ ہیں جہاں ایام حج میں عازمین جاتے ہیں۔بیت اللہ اور مطاف میں قبولیت والی جگہیں۔بیت اللہ شریف کے اندر، مقام ملتزم پر، حجر اسود کے پاس،میزاب کعبہ کے نیچے، مقام ابراہیم کے پیچھے، زم زم کے پاس اور طواف کے دوران۔صفا اور مروہ کے تین مقامات میں سے دو مقامات تو صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے پاس اور قبولیت کی تیسری جگہ سعی کے عمل کے دوران ساتوں چکر ہیں۔ باقی پانچ مقامات میں وقوف عرفات، وقوف مزدلفہ اور تینوں جمرات ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38