سعودی عرب کا نام آتے ہی ہمارے دلوں کا جلترنگ بج اُٹھتا ہے۔ سعودی عرب ہماری آرزو¶ں، ہماری تمنّا¶ں اور ہماری محبتوں کا دیس ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جس میں دنیا کے دو مقدس ترین مقامات ہیں، ایک اللہ کا گھر دوسرا اللہ کے نبی کا گھر یعنی مسجد الحرام مکة المکرمہ اور روضہ¿ اطہر و مسجد نبوی مدینہ منورہ۔ اس لئے دنیا میں مسلمان جہاں کہیں بھی بستا ہو وہ اس ارضِ مقدس سے اپنے وطن سے بھی بڑھ کر محبت کرتا ہے۔ دنیا میں سفارتی روایات کے مطابق دو ملکوں کے درمیان تعلقات باہمی مفادات کےلئے قائم ہوتے ہیں اور انہی مقاصد کےلئے پروان چڑھائے جاتے ہیں مگر پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات سفارتی تاریخ کے انوکھے تعلقات ہیں کہ جو دو ملکوں کے درمیان نہیں دو بھائیوں کے درمیان قائم ہیں۔ بلاشبہ یہ دونوں بھائی ایک دوسرے کے مفادات اور ضروریات کا دل و جان سے خیال رکھتے ہیں اور مصیبت اور ضرورت کی گھڑی میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات پاکستان کے قیام کے روز اول سے قائم ہوئے ہیں اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ساتھ مزید مضبوط اور مستحکم ہو رہے ہیں۔ سعودی عرب کے دوسرے فرمانروا شاہ سعود بن عبدالعزیز نے 1954ءمیں پاکستان کا دورہ کیا، جگہ جگہ ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ حکومتی گرمجوشی تو اپنی جگہ مگر وہ جہاں کہیں گئے کراچی سے پشاور تک جس شہر میں گئے وہاں اُن کا عوامی استقبال بے مثال ہوا۔ عوام نے اُن کیلئے دید و دل فرش راہ کر دئیے اور کہیں گھوڑوں اور اونٹوں کے رقص سے اور کہیں خٹک ڈانس سے اور کہیں ڈھول کی تھاپ پر دھمالیں ڈال کر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ شاہ سعود اس استقبال اور سعودی حکومت اور عوام کےلئے پاکستانی عوام کے جذبات دیکھ کر بہت متاثر بھی ہوئے اور خوش بھی۔
1974ءمیں اسلامی کانفرنس کے موقع پر شاہ فیصل بن عبدالعزیز پاکستان آئے۔ بادشاہی مسجد لاہور میں انہوں نے جس انہماک کے ساتھ دعا کی اس لمحے کی کیفیت اور تصویر آج تک پاکستانیوں کے دلوں میں جگمگا رہی ہے۔ اس سے پہلے شاہ فیصل کے ایک قریبی ذریعے نے مجھے بتایا تھا کہ جب 1971ءمیں سقوطِ ڈھاکہ کی خبر انہیں سُنائی گئی تو اُنکی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور وہ تادیر آزردہ اور افسردہ رہے مگر جب بنگلہ دیش ایک حقیقت بن گیا تو انہوں نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک پُل کا کام کیا اور شیخ مجیب الرحمن کو اسلامی کانفرنس میں شمولیت پر آمادہ کیا اور اس کانفرنس کی کامیابی کےلئے ہر ممکن کوشش کی۔ اس طرح ولی عہد کی حیثیت سے شاہ فہد بن عبدالعزیز آئے تو انہوں نے پاکستان کےلئے گہرے برادرانہ جذبات کا اظہار کیا اور پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دیا۔ وہ پاکستان کی تعمیر و ترقی دیکھ کر خوش ہوئے۔ اسلام آباد کی ہوا، فضا اور یہاں کی وسیع و عریض اور سرسبز درختوں سے آراستہ سڑکیں دیکھ کر انہیں بہت مسرت ہوئی اور انہوں نے اظہار کیا کہ وہ سعودی عرب کے گرمائی دارالحکومت طائف کو اسلام آباد کی طرح خوبصورت بنائینگے اور فی الواقع انہوں نے خوشگوار موسم اور انار و انگور کے بے مثال پھلوں والی سرزمین طائف کو اسلام آباد سے بھی زیادہ خوبصورت بنانے کے کئی منصوبے شروع کئے جنہیں اب شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے مکمل کیا۔ 90ءکی دہائی میں شاہ عبداللہ ولی عہد کی حیثیت سے پاکستان آئے تو اُن کا بھی بہت والہانہ استقبال ہوا، اس وقت پاکستان مغربی دنیا کے دبا¶ کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکار تھا۔ جب ایک صحافی نے اُن سے لاہور میں پوچھا کہ آپ نے پاکستان کی کتنی امداد کی تو اس پر شاہ عبداللہ نے کہا کتنی کو چھوڑئیے ہم نے پاکستان کی وہ مدد کی جو ایک بھائی کو اپنے بھائی کی کرنی چاہئے۔
23 ستمبر سعودی عرب کا قومی دن ہے۔ ہمیں سعودی سفیر ڈاکٹر عبدالعزیز بن ابراہیم الغدیر کی طرف سے دعوت نامہ اور پھر سعودی سفارت خانے کی میڈیا کوآرڈینیٹر ریحانہ خان اور پروفیسر نعیم مسعود نے تاکید مزید کی تو ہم 25 ستمبر کو سعودی بھائیوں کی خوشی میں شام ڈھلے اسلام آباد میں سعودی سفارت خانے کے وسیع و عریض سبزہ زار میں جا پہنچے۔ سعودی سفیر مرکزی گیٹ کے اندر مہمانوں کےلئے استقبال کےلئے بنفسِ نفیس موجود تھے۔ نہایت تپاک سے ملے اور عربی میں خوشگوار جملوں کا تبادلہ ہوا۔ ذرا آ ئے بڑھے تو پاکستان کے یوم آزادی کی تقریب کے انداز میں سعودی اور پاکستانی بچے سعودی عرب اور پاکستان کے ملی نغمے گا رہے تھے یہ منظر بڑا خوبصورت اور دل کو موہ لینے والا تھا۔
موجودہ سفیر ڈاکٹر عبدالعزیز الغدیر کے بارے میں یہ جان کر مجھے بڑی خوشگوار حیرت ہوئی کہ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ہمیں سعودی عرب کی تعمیر و ترقی کے بارے میں تازہ ترین معلومات اور سعودی سفیر کی اپنی تصانیف پر مشتمل کتابوں کا ایک سیٹ بھی دیا گیا۔ آج سے آٹھ دس برس قبل میں تقریباً دو دہائیوں تک سعودی وزارت تعلیم سے بحیثیت استاد منسلک رہا۔ اُس وقت سعودی عرب اپنے بجٹ کا سترہ فیصد تعلیم پر خرچ کر رہا تھا اور آج سعودی عرب اپنے بجٹ کا 26 فیصد تعلیم کے شعبے پر صرف کر رہا ہے۔ اتنی بڑی رقم سالانہ دنیا کا کوئی اور ملک اپنی تعلیم پر خرچ نہیں کر رہا۔ ہر طالب علم اور طالبہ کی تعلیم مفت ہے۔ ثانوی درجے تک کتابیں مفت ہیں۔ یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلبہ اور طالبات کو اعلیٰ تعلیم بالکل مفت مہیا کی جاتی ہے اور انہیں تقریباً ایک ہزار سعودی ریال ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہر سعودی شہری کےلئے اعلیٰ معیار کے بہترین ہسپتالوں میں علاج بالکل مفت اور اگر کسی عام شہری کو بھی علاج کےلئے بیرون ملک جانے کی ضرورت ہوتی ہے تو حکومت حکومت کے خرچ پر اسے اپنے ایک مرافق کے ساتھ باہر بھیجا جاتا ہے چاہے اس علاج پر لاکھوں ریال خرچ ہی کیوں نہ آئے۔ سعودی عرب ایک ایسی فلاحی ریاست ہے کہ جہاں لوگوں کے حصے میں خوشحالی آئی اور انہیں اپنی عدالتوں سے انصاف ملتا ہے اور اگر کسی کے ساتھ کوئی زیادہ ہوتی ہے تو اس بات ہر مرحلے پر سُنی جاتی ہے اور اس رسائی براہ راست گورنروں، وزیروں اور شاہ عبداللہ تک باآسانی ہو سکتی ہے۔
پاکستان میں سعودی سفیر ڈاکٹر عبدالعزیز الغدیر کی ایک کتاب ہے ”معاشرتی مسائل کے حل کیلئے حفاظتی سفارتکاری کا کردار“ نہایت خوبصورت کتاب ہے اور شروع سے آخر تک ایک خوشگوار اسلوب میں لکھی گئی ہے جس میں قرآن و حدیث اور موجودہ دور کی معلومات شامل ہیں۔ ایک سفارتکار کے اوصاف بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ”سفارتکاری ایک اہم پیشہ اور بہت بڑی ذمہ داری ہے جس کےلئے ایسے شخص کا انتخاب ضروری ہے جو انتہائی عقلمند، خوش گفتار، دلیل و حجت سے بات کرنے ولاا، جہاں دیدہ اور جس ملک کی طرف اسے بھیجا جائے اس کے بارے میں معلومات رکھنے والا ہو۔“ ڈاکٹر عبدالعزیز کی ساری ہی کتابیں پڑھنے والی ہیں۔
سعودی عرب کے قومی دن کی رونق کو دوبالا کرنے کیلئے ہماری اہم شخصیات اس تقریب میں آئیں۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف آئے اور انہوں نے سعودی سفیر، دوسرے سعودی زعماءاور بچوں کے ساتھ ہاتھ میں تلواریں لے کر رقص کیا۔ اُنکے علاوہ قاضی حسین احمد، مولانا فضل الرحمن، لیاقت بلوچ، مولانا عبدالغفور حیدری، حافظ حسین احمد، زمرد خان، جنرل حمید گل، علامہ ساجد میر وغیرہ موجود تھے۔
پاکستان کی علمی و تعلیمی شخصیات میں ڈاکٹر پروفیسر محمد اکرم چوہدری وائس چانسلر سرگودہا یونیورسٹی بہت نمایاں تھے۔ ڈاکٹر صاحب عربی میں پی ایچ ڈی ہیں لہٰذا وہ عربوں سے عربی میں ہی ہمکلام تھے۔ ایک اور شخصیت سے بھی وہاں ملاقات ہوئی جو پاکستانی نژاد سعودی ہیں اور بیک وقت سعودی عرب اور پاکستان کے غیر رسمی سفیر ہیں میری مراد ڈاکٹر غلام اکبر خان نیازی سے ہے۔
میں نے مولانا فضل الرحمن سے عرض کیا کہ گذشتہ روز آپ نے جو بیان دیا وہ آپکے عمومی طرز عمل سے مختلف تھا۔ آپکے لہجے میں تلخی بہت تھی۔ وہاں موجود ساری دینی شخصیات ایم ایم اے کی پوری شان و شوکت سے بحالی کے حق میں تھیں۔ مولانا حیدری نے بتایا کہ انہوں نے لیاقت بلوچ سے آج ہی گفتگو کی ہے۔ حافظ حسین احمد نے بتایا کہ انہوں آج ہی ٹیلی فون پر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ سے بات کی ہے۔ حافظ حسین احمد کا کہنا تھا کہ اگر ایم ایم اے بحال نہیں ہوتی اور دینی سیاسی جماعتیں الگ الگ انتخابات میں حصہ لیتی ہیں تو اس کا دونوں بڑی دینی و سیاسی جماعتوں، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان سے ہماری یاد اللہ ہے انہوں نے اُن دنوں کو یاد کیا جب وہ میرے ٹی وی پرگوراموں میں آتی تھیں اور میری طرح اینکر بن کر پروگراموں کی میزبان بننے کی خواہش کا اظہار کیا کرتی تھیں۔ پھر اللہ کی شان دیکھئے کہ وہ وزرات اطلاعات کی وزیر بن گئیں اور اس خواہش کو بھول گئیں۔ اللہ پاکستان اور سعودی عرب کے برادرانہ تعلقات کو ہمیشہ ہمیشہ قائم دائم رکھے اور دونوں ملکوں کو مزید ترقی اور استحکام دے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024