جمعرات،21 ربیع الاول 1443ھ28 اکتوبر 2021ء
عدالت کا کراچی میں گرین بیلٹس کلیئر کرانے کا حکم
گرڈ سٹیشن ہوں یا پٹرول پمپ، رہائشی عمارتیں ہوں یا کاروباری مراکز، مارکیٹس ہو یا کچھ اور،شہر کی گرین بیلٹ پر کسی کو ایسی کوئی بھی ناجائز عمارت کھڑا کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ کراچی کو ویسے ہی مختلف مافیاز نے ایسا گنجلک شہر بنا دیا ہے جس کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔ اب اگر عدالت ایسا سخت حکم جاری کر رہی ہے تو اس پر عمل بھی کرائے۔ قبضہ مافیا نے ہر طرف سے کراچی کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ ان بدبختوں نے سڑکوں پر بنی گرین بیلٹس تک کو نہیں بخشا اور وہاں بھی عمارتیں کھڑی کر دی ہیں۔ اب ایسا ہی سخت اور نیک کام اگر لاہور، پنڈی ، کوئٹہ اور پشاور کے ساتھ دیگر شہروں میںبھی شروع کیا جائے تو کمال ہی ہو جائے۔ یہ سب شہر بھی اسی طرح حال سے بے حال ہیں۔ ان کی اصل شکل بحال کرنا بھی ضروری ہے۔ ورنہ ان شہروں میں نہ گھاس بچے گی نہ درخت نہ ہی کوئی نالہ نظر آئے گا نہ کوئی کھلی سڑک۔ خدا کرے کہ اب ان قبضہ گروپوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ان شہروں کو واگزار کرایا جائے تاکہ یہاں کے باسی آرام کی زندگی بسر کر سکیں۔ کراچی کے نسلہ ٹاور کو بارود سے گرانے کا فیصلہ ایک مثال نظیر بن سکتا ہے۔ جس کو اگر ہرطرح کی تجاوزات پر نافذ کیا جائے تو اکثر شہروں میں شہریوں کو تازہ ہوا اور کھلا آسمان میسر آ سکتا ہے۔
٭٭٭٭
ٹی وی ڈراموں میں غیر مہذب مناظر پر پابندی کا نوٹیفکیشن عدالت میں چیلنج
اب اگر حکومت کو خیال آ ہی گیا تھا اور اس نے ٹی وی ڈراموں میں غیر مہذب الفاظ‘ مناظر اور حرکات کے نشر کرنے پر پابندی لگا دی تھی تو اچانک کسی کو یہ پابندی بری کیوں لگنے لگی۔ ٹی وی ہر گھر میں فرد کی حیثیت رکھتا ہے۔ پورا گھر نہ سہی‘ گھر کے اکثر افراد جن میں زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں‘ فارغ وقت میں ٹی وی ڈرامے‘ بیوٹی پروگرام اور کھانا پکانے کی تراکیب دیکھتی ہیں۔ باقی سب تو خیر ہے مگر یہ جو پاکستانی ڈراموں میں آجکل زوال کو کمال بنا کر دکھایا جا رہا ہے‘ یہ کہاں کا انصاف ہے۔ جن لوگوں کے گھروں میں ایسا ماحول ہے جہاں بھابی دیور کے ساتھ‘ سالی بہنوئی کے ساتھ‘ سسر بہو کے ساتھ عشق پیچا لڑا رہے ہیں ‘ ان چند فیصد گھرانوں کی بات نہیں کرتے مگر ان چند گھرانوں کے ترجمانوں کو کیا حق ہے کہ وہ 98 فیصد گھرانوں میں ان مکروہ خیالات کو پھیلانے کیلئے ٹی وی کا سہارا لیں۔ ہمارے معاشرے میں چند ایک کو چھوڑ کر آج بھی ہر گھر میں ایسے ڈراموں پر شدید تنقید ہو رہی ہے۔ لوگ مل بیٹھ کر ڈرامہ دیکھنے سے پرہیز کرنے لگے ہیں کیونکہ اتنے بے باک مناظر اور اخلاق سے گرے جملے اور اشارے بازیاں دیکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ ایک وقت تھا پورا خاندان پاکستانی ڈرامہ مل بیٹھ کر دیکھتا تھا‘ آج یہ حالات ہیں لبرل ازم کے نام پر‘ آزادی اظہار کے نام پر بے ہودگی کو فروغ دیا جانے لگا ہے۔ ڈرامہ لکھنے والے کم از کم رشتوں کے تقدس کا تو خیال کریں۔ گھروں کے ماحول کو تو خراب نہ کریں۔ خدا کرے عدالت اس اخلاقی تباہی کے عمل کو روکنے کیلئے مزید سخت اقدامات کا حکم دے۔
٭٭٭٭
ٹھوکا ٹھوکا کے بعدسکیورٹی سکیورٹی کا کورس بھی مقبول ہو گیا
بھارت کے خلاف جس طرح ٹھوک بجا کر پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے میچ جیتا، اسے ’’دو آدمی تھے‘‘ کی کارروائی کہنا سو فیصددرست ہے۔ اب باری تھی نیوزی لینڈ کی جو بھارتی پروپیگنڈے میں آ کر پاکستان میں سیریز سے قبل ہی سکیورٹی کا بہانہ بنا کر واپس بھاگ گئی تھی۔ ان سے بھی حساب چکتا کرنا ضروری تھا۔ چنانچہ ورلڈ کپ ٹی ٹونٹی میں یہ موقع بھی پاکستانی شاہینوں کو جلد مل گیا اور انہوں نے حساب برابر کر دیا۔ بھارت کے بعدنیوزی لینڈ کو بھی دھو کر رکھ دیا۔ پہلے تو چلیں دو تھے اب کی بار تو پوری ٹیم نے کھل کر بدلہ لیا۔ ہر کھلاڑی نے جان لڑا کر کیویز کو ایسا رگیدا کہ انہیں شارجہ میں بھی اپنی سکیورٹی یاد آ گئی ہو گی۔ میچ کے دوران پاکستانی تماشائیوں نے کورس کی شکل میں سکیورٹی سکیورٹی کی جو تان چھیڑی وہ میچ کے آخر تک سنائی دیتی رہی۔ کیویز کی بے بسی بھی بھارتی کھلاڑیوں کی طرح دیکھنے والی تھی ان کے چہروں پر شرمندگی کے ساتھ پاکستان سے بھاگنے کی ندامت بھی محسوس کی جا رہی تھی۔ سوشل میڈیا پر بھی خوب تبصرے ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک میم نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم سے ہاتھ ملاتے ہوئے مودی کہتا ہے، ’آپ بھی ہار گئیں‘ تو جواب میں وہ کہتی ہیں، ’ہم تو صرف ہارے ہیں مودی جی آپ تو جی بھر کے ذلیل ہوئے تھے‘۔
٭٭٭٭
سکھر میں گداگر کا بھتہ مانگنے والے پولیس اہلکار کے خلاف کیس
دنیا بدل گئی مگر پولیس والوں کے لچھن نہ بدلے۔ وہ بھتہ خوری سے باز نہیں آئے۔ کوئی عام آدمی زور زبردستی سے پیسے مانگے تو وہ بھتہ خور اور وردی والا مانگے تو وہ بھی جناب بھتہ خور ہی کہلائے گا۔ پولیس تو ساری کی ساری ہی اس معاملے میں مہارت رکھتی ہے مگر زور زبردستی سے حاصل ہونے والی اس رقم کو پولیس بھتہ تسلیم نہیں کرتی۔ شاید اسے وردی کا حق مانتی ہے۔ اب سکھر میں ایک گداگر نے پولیس کی طرف سے زبردستی بھتہ مانگنے پر کیس کر دیا ہے اور اپنی درد بھری داستان سناتے ہوئے کہا ہے ، پولیس والے اس سے روزانہ پیسے بٹورنے آ جاتے ہیں۔ انکار کرنے پر اسے تنگ کیا جاتا ہے۔ اب تو معاملہ یہاں تک آ گیا ہے کہ پولیس اس کے گھر پر بھی چھاپے مارنے لگی ہے۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ کیا اس فقیر کی آمدنی اتنی ہے کہ پولیس بھی اس پر للچائی نظریں گاڑھے ہوئے ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ اتنا طاقتور بھی ہے کہ پولیس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ حالانکہ دونوں کا کام ایک ہی ہے۔ فقیر لوگوں سے مانگتا ہے اور پولیس اس سے مانگ رہی ہے۔ کہتے ہیں ناں
مانگنے والا گدا ہے بھیک مانگے یا خراج
سو اب دو منگتے ایک دوسرے کے خلاف آ گئے ہیں۔ ایک پھٹے پرانے لباس کی آڑ میں دوسرا وردی کی آڑ میں بھتہ مانگتا ہے۔ دیکھتے ہیں کون طاقتور نکلتا ہے!