دعوت کیجیے ۔۔۔۔مگر
وقت کے ساتھ ساتھ رکھ رکھائو اور ماحول میں بھی جدت آگئی ہے پہلے جہاں چند مواقعوں پر دعوت ہوتی تھی اور گھر پر ہوتی تھی اب مواقعوں کی تلاش ہوتی ہے اگر گھر بدلا تو دعوت،بیٹے نے میٹرک پاس کیا تو دعوت وہ تو خیر اب یہ ہوتا ہے کہ دعوت کسی ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں رکھ لی جائے تو اچھا ہے مگر پھر اگر نئے گھر کی دعوت ہے تو وہ تو گھر پر ہی ہوگی ایسے میں خاتون خانہ کی کچن کی ذمہ داریوں میں کمی بیشی نہیں ہوتی بلکہ اضافہ ہی ہوجاتا ہے ۔پہلے دعوت کا مینیو سوچا جاتا ہے کہ کتنے آئٹم دسترخوان کی زینت بننے ہیں اور پھر آٗئٹم بھی ایسے ہو کہ شوہر،بچوں کے ساتھ مہمانوں کو بھی پسند آئیں اور پھرکچھ منفرد بھی ہو تاکہ چار جگہ یہ بات بھی پتا چلے کہ زہرہ کے ہاتھ میں ذائقہ ہے۔ دعوت کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے مگر اگر آپ کی جیب صرف اس ایک دعوت کی اجازت دیتی ہے اور پھر گھر پر کام کرنے والی ماسی کو راشن دینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا جاتا ہے کہ تمھارے صاحب نے منع کردیا کیونکہ منع صاحب نے ہی کیا ہوتا ہے حتی کہ دعوت صاحب کی مرضی اور رضا سے ہوئی ہوتی ہے مگر ان کا ہاتھ تنگ ہوجاتا ہے۔ ایسے میںپھر یہ کئی گنا بہترنہیں کہ وہ پیسے جو دعوت پر خرچ کیے جارہے ہیں ان سے پہلے غریبوں کی مدد کی جائے ان کے لیے بہترین کھانے کا انتظام کیا جائے اگر گھر سے باہر ایسا کرنا ناممکن ہے تو کم از کم وہ ماسیاں جو آپ کے گھروں میں کام کررہی ہیں ان کی مدد اپنی استطاعت میں رہتے ہوئے کی جائے کیونکہ سچ سے آنکھیں چھپانے سے کچھ حاصل نہیں یہیں وہ اعمال ہیں جو آپ کی وہاں کی بگڑی سنواردینگے کب کس کی ضرورت آپ سے پوری ہورہی ہے آپ نہیں جانتے کب کون آپ کے لیے دعا کررہا ہے اس سے آپ لاعلم ہے اس لیے کوشش کیجئے اپنا وقت اور پیسہ وہاں لگائیں جہاں سے وقتی خوشی وقتی تعریف موصول نہ ہو بلکہ سب کچھ دائمی ہو ۔افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ آج ہم رشتے نبھانے میں اس قدر مصروف ہیں کہ وہ سب بھولے جارہے ہیں جو اصل ہے اس لیے میری درخواست ہے کہ خود بھی اور اپنے گھر والوں کو بھی منائیے اور اس بات کی کوشش کیجئے کہ اگر آپ کے پاس بے پناہ ہے تو ضرور لمبی چوڑی دعوت کیجئے کیونکہ یقینا پھر آپ اتنا ہی مال غریبوں پر بھی خرچ کریں گے لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر دنیا نہیں آخرت کو تھامیئے اور جو ہے اس سے غریبوں کی ضروریات پوری کیجئے اللہ آپ کو اور نوازے گا اور وہاں کی سنوارے گا۔…مبشرہ خالد۔کراچی