سیاست کیلئے قائداعظم کے مز ار کا استعمال
مریم نوازکی پریس کانفرنس میں پی ڈی ایم کی قابلِ ذکرشخصیت فضل الرحمن ہی تھے ۔ بلاول بھٹو پریس کانفرنس سے غائب تھے اور خانہ پوری کیلئے راجہ پرویز اشرف اور ناصر حسین شاہ کو بھیج دیا گیاحالانکہ یہ پریس کانفرنس اس کراچی میںمنعقد کی گئی جہاں بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کی سندہ حکومت نے ایک دن پہلے مریم نوازکی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی عوام کے خون پسینے کی کمائی سے دیئے گئے ٹیکس کا پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا کروڑوں روپوں کے بینرزاور جھنڈے شہر بھر میں لگائے گئے۔ پیپلزپارٹی کے نشان پہ نوازشریف،شہباز شریف اورمریم نواز کی تصاویر آویزاں کی گئیں ایسا لگ رہا تھا کہ جسیے ن لیگ پیپلزپارٹی میں ضم ہوگئی ہو یااسکی ذیلی تنظیم ہو۔ ماضی میں ایک دوسرے کوگریبان سے پکڑ کر زمین پہ رگڑنے والے اور ایک دوسرے کے پیٹ پھاڑنے والے،ایک دوسرے پر کرپشن کے مقدمات بنوانے والے جس کی وجہ سے دونوں آج نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں ایسے شیروشکر بظاہرنظر آرہے تھے جیسے ان کا بچپن کا یارا نہ ہو ۔کیا مریم نوازاور ان کے شوہرِ نامدار کو مزارِ قائد پہ حاضری کے ادب واحترام ،حدود وقیود اورقوانین کا علم نہیںتھا جسکی پاسداری ملکی توکیا غیر ملکی سربراہِ مملکت ، سربراہِانِ افواج ،سفیر اور دیگر حکومتی نمائندگان کرتے آرہے ہیں ۔ مریم نواز پریس کانفرنس سے پہلے پورا دن پارٹی میٹنگ اور دیگر آنے والے مہمانوں سے غیر رسمی ملاقاتیں کرتی رہیں مگر اس دوران اور پریس کانفرنس کے دوران ان کے چہرے پریشانی اور پشیمانی کے آثار نہیں تھے ۔بلاول نے پورے دن چپ سادھے رکھی اور میڈیا میں آکر کوئی بیان نہیں دیا اور صرف میسج کے ذریعے مریم نواز سے تعزیت ، شرمندگی اور ندامت کااظہارِکرتے رہے اورمراد علی شاہ نے بھی یہی پالیسی اختیار کی اور ن لیگی حواریوں کی زبانوں کو بھی تالے لگیرہے مگر اگلے دن واقعے کے تقریباّّ 36 گھنٹے کے بعدمراد علی شاہ نے پریس کانفرنس کے ذریعے باقاعدہ اپنے تحفظات کا اظہار کیا مگر آئی جی کے اغوا کے سوال کا جواب دیئے بغیر چلے گئے ۔ انھیں کس نے روکا تھا اس کے متعلق بات کرنے سے ۔ مگر اس کے بعد آئی جی سے لے کر نیچے کی پوری چین آف کمانڈ نے احتجاجاّّ چھٹی پہ جانے کا ٖ فیصلہ کیامگر سوال یہ ہے کہ آئی جی سے لے کر نیچے کی پوری چین آف کمانڈ کو اس پریس کانفرنس کے بعد ہی اپنی پیشہ وارانہ بے عزتی کا خیال کیوں آیا اس سے پہلے کیوں نہیں ۔اس کے بعد بلاول حرکت میں آئے انھوں نے ایک پریس کانفرنس کرکے اپنے غم وغصے کا اظہار کیا اور اسی دن آرمی چیف اورآئی ایس آئی کے سربراہ کا نام لیکر مد د مانگی جس پر آرمی چیف نے وا قعے کی تحقیقات کی یقین دہانی کرائی ہے ۔ اس پہ بلاول نے آرمی چیف کا شکریہ بھی ادا کیا۔دوسری جانب نواز شریف ،ہسپتالوں سے علاج کروانے کے بجائے یستورانوںمیں تاز ہ ہوا کھانے اورسیاسی ایکٹیویٹیز کرنے ،جلسوں میں خطاب کرکے معزز اداروںکے خلاف الزامات لگانے اور ہرزہ سرائی کرکے اپنا علاج کروار ہے ہیں ویسے تو کچھ نہیں کرسکتے چلو الزام تراشیاں
کرکے ہی کچھ درد اورزخم میں آرام آجائے حلانکہ یہ زخم ان کے خود ہی کے لگائے ہوئے ہیں مگر درد کی چیخیں کسی اور پہ نکل رہی ہیں ۔ خیر کراچی کے جلسے میں نواز شریف کو خطاب کرنے کا موقع نہیں دیا گیا انھیں درد کی چیخیں نکالنے سے بھی روک دیا گیا ۔ مگرحیرت کی بات یہ ہے کہ مریم نواز کو یہ بات کیسے بردا شت ہوگئی کی اپنے والد متحرم کے بیانیئے ووٹ کو عزت دو اور وہ اس بات کا پرچار کرتے ہوئے نہیں تھکتی تھیں کہ ن لیگ میں صرف نواز شریف کا ہی بیانیہ چلتا ہے اس کا احترام شہباز شریف سے لے پوری قیادت ایسے کرتی ہے جیسے کوئی آسمانی صحیفہ ہو، مگر آج آپ کے کان پہ جوں تک کیوں نہیں رینگی۔ کیا نواز شریف کو بھی انکے چاہنے والے مخلص ہمدردوں اور ان کی چہیتی بیٹی نے بانی متحدہ کی صف میں لاکھڑا کیا ہے اس کا فیصلہ آنے والے وقتوں میں ہوجائے گا۔