ٹی وی نامہ اسلم اظہر 4
یہ حقیقت ہے کہ اسلم اظہر کے بغیر پی ٹی وی کا ذکر ہو نہیں سکتا۔ وجوہات کئی ہیں ایک تو یہ کہ وہ اس ادارے کے بانیوں میں سے تھے دوم یہ کہ وہ مالی لحاظ سے دیانت دار انسان تھے، تیسرے یہ کہ وہ اچھے منتظم تھے، چوتھے یہ کہ وہ وجیہہ اور با رعب تھے اور پانچویں یہ کہ وہ دوسرے کی خوبیوں کا کھُلے دل سے اعتراف بھی کیا کرتے تھے ۔ اُن کی نجی زندگی ٹھیک ٹھاک تھی۔ اُن کی بیگم بہت بھلی شخصیت تھیں۔ تاہم کوئی بھی انسان ایسا نہیں گزرا جو ہر لحاظ سے اپنے اندر خوبیاں ہی خوبیاں رکھتا ہو۔کیوں کہ ہر انسان میں کوئی نہ کوئی کجی یا خامی ہوتی ہی ہے۔ یہ شرف صرف اللہ کے پیغمبروںکو حاصل ہے کہ وہ ہر لحاظ سے معصوم ہوتے ہیں کہ اُن کی حفاظت بھی خصوصی ہوتی ہے۔یوں وہ انسانیت کے اعلیٰ ترین نمونے ہوتے ہیں۔بھُٹو نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان بنتے ہی اسلم اظہر کو پاکستان ٹیلیویژن کا مینیجنگ ڈائریکٹر لگا دیاتوبھٹو کی کچھ خصوصیات بھی اسلم اظہر میں پُختہ ہو گئیں۔ ایسا اکثر ہو جایا کرتا ہے کہ بادشاہوں کی خصلتیں اُس کے درباریو ںمیں در آتی ہیں۔ خاص طور پر وہ خصلتیں جن کے بیج درباریوں میں پہلے سے موجود ہوں۔یہ تو سب جانتے ہیں کہ بھٹو منتقم مزاج تھے اور چوں کہ وہ وڈیرے تھے تو معاف کر دینے کے ہنرسے وہ ناواقف ِ محض تھے۔ہر انگلی برابر نہیں ہوتی کچھ وڈیرے اچھے بھی ہو تے ہیں جیسے شیر باز خاں مزاری۔خیر ذکر ہو رہا تھا اسلم اظہر کا۔اُنہی دنوں چین کا ثقافتی قسم کا ایک وفد پاکستان آیا تو کراچی میں ایک فائیوا سٹار ہوٹل میں مینیجنگ ڈائریکٹر پی ٹی وی نے اُس وفد کی دعوت کی۔اُس دعوت میں کراچی ٹی وی سینٹر کے گروپ سیون اور اس سے اونچے رُتبے والے اعلیٰٰ افسروں کو مدعو کیا گیا۔میں اور عبید اللہ علیم بہت بھنّائے اور فوراً ایک احتجاجی مراسلہ لکھا جس میں یہ گلہ کیا گیا تھا کہ اصل میں تو پروڈیوسروں کوپیشہ ورانہ طور پر ضرورت ہوتی ہے کہ اُن کو بین الاقوامی وفود سے میل جول کے مواقعے مہیا کیے جائیں تا کہ اُن کی حدِّ نظر وسیع ہو جو اُن کے پیشے میں کام آئے۔ تو یہ ایک ایسا ہی موقع تھا ۔ گروپ پانچ اور چھ کے پروڈیوسروںکو یہ موقع نہ دے کر انتظامیہ نے اُن کی حدِ نظر کو محدود کرنے کا بیہودہ مظاہرہ کیا ہے اور ہم سب اس کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ یہ احتجاجی مراسلہ لکھ کر اور ایک لفافے میں بند کرکے میں، عبیداللہ علیم اور جاوید ملک اُس پنج ستارہ ہوٹل میں پہنچے جہاں رات کو یہ دعوت تھی اور جہاں اسلم کا بھی قیام تھا۔ہم لفٹ کے سامنے لاؤنج میں بنے ایک نیم دائرے میں بنی حجرہ نما علیحدہ جگہ میں بیٹھ گئے۔انتظامیہ کا جاسوسی نیٹ ورک کم و بیش ہر ادارے میں ہوتا ہے۔ اچانک نثار حسین خواجہ جو اُن دنوں پی ٹی وی کی اعلی انتظامیہ میں شامل تھے نمودار ہوئے اور ہم تینوں سے آکر ملے اور ہم سے پوچھا کہ ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ ہم نے بتایا کہ ہم اسلم اظہر مینیجنگ ڈائریکٹر سے ملنے آئے ہیں۔ خواجہ صاحب نے ہمیں بتایا کہ ایم ڈی صاحب شاید ہم سے نہ مل سکیں کیوں کہ اُن کی طبیعت بعارضۂ شکم خراب ہے۔ ہم نے اُن سے درخواست کی کہ آپ بس اُن تک ہمارا سلام پہنچا دیں۔ انہوں نے اثبات میں سر ہلایا ’’اچھا ‘‘کہااور لفٹ میں سوار چلے گئے ،(خواجہ نثار حسین کافی کم اور سہج گو تھے۔میں لاہور میںپی ٹی وی کے ابتدائی دنوں میںاُن کی ایک پروڈکشن میں اُن کے ایک پنجابی کھیل میںسادہ مگر سمجھ دار دیہاتی کا رول کر چکا تھا جس کی کافی توصیف ہوئی تھی، خواجہ صاحب ایران سے ٹیلیویژن پروڈکشن کا کورس کر کے آئے ہوئے تھے)لفٹ اوپر چلی گئی اور ہوٹل کے چند گیسٹ لفٹ کے انتظار میں جمع ہو گئے۔ ان انتظار کرنے والوں میں ایک ادھیڑ عمر گوری اور اُس کا کتا بھی تھا۔ اچانک ہم کیا دیکھتے ہیں کہ محترمی اسلم اظہر آکر منتظر قطار میں کھڑے ہو ئے اور فوراً ہی کُتے کے برابر جھک کر گوری کے کُتے سے لاڈ پیار کرنے لگے۔ ہم ٹُک ٹُک دیدم دم نہ کشیدن چند قدم پر بیٹھے کُتے سے اسلم اظہر صاحب کی محبت کا نظارہ کرتے رہے۔ اتنے میں لفٹ آئی اور منتظر لوگ مع اسلم اظہر لفٹ میں سوار ہوئے اور لفٹ اوپر چلی گئی۔ہم ہاتھ میں احتجاجی مراسلے والا لفافہ لیے بیٹھے رہے اور میرا خیال ہے تینوں ہی تصور کی آنکھ سے ایم ڈی کے لفٹ سے اترنے اپنے کمرے میں جانے، نثار حسین خواجہ کے ایم ڈی کو ہمارا پیغام دینے اور تھوڑی دیر بعد اُن کے واپس لفٹ کی طرف آنے،لفٹ میں سوار ہونے اور گراؤنڈ فلور کی طرف آنے کا منظر جماتے رہے ۔اتنے میں لفٹ رُکی اور اسلم اظہر برآمد ہوئے اور تیز قدموں سے ہماری جانب بڑھے۔ ہم تعظیماً کھڑے ہو گئے، سلام کیا اورسب بیٹھ گئے۔ اسلم صاحب نے عبید اللہ علیم سے قدرے کرخت لہجے میں کہا، ’’علیم تم کوئی نہ کوئی مصیبت کھڑی کرتے رہتے ہو۔ کہو کیا بات ہے؟‘‘ علیم نے لفافہ بڑھاتے ہوئے کہا ، ’’ہم یہ خط آپ کے ملاحظے کے لیے لائے ہیں۔‘‘ اسلم صاحب نے لفافہ لے لیا اور کہا،’’ میں جانتاہوں اس میں کیا لکھا ہے۔‘‘پھر ایک وففے کے بعد انہوں نے اپنی خوبصورت انگریزی کا استعمال کرتے ہُوئے ہم تینوں کو فوکس کیااور کافی کُرخت لہجے میں فرمایا،"Do you feel insulted?" میرا خیال ہے ہم تینوں بیک وقت بولے،"yes." اس پر اسلم اظہر نے بلا کسی توقف اور تکلّف کے ہمیں جھاڑتے ہوئے کہا،"Then you deserve it." یہ سنتے ہی عبید اللہ علیم نے اسلم اظہر کے ہاتھ سے لفافہ جھٹکے سے کھینچا ، ’’آپ سے تو کلام ہی نہیں ہو سکتا ۔‘‘ علیم کی کرخت آواز سنائی دی اور ہم تینوں بغیر سلام و الوداع کے یک دم اُٹھے اور اُس حجرے سے باہر نکل آئے۔اُن دنوں اُس ہوٹل میں ایک پیٹرول پمپ بھی ہوتا تھا۔ اُسکے سامنے پارکنگ کی طرف جانے والی ایک چھوٹی سی سڑک تھی جس کے بعد وہ بڑی سڑک شروع ہو جاتی تھی جو آگے جا کر میٹروپول سے جا ملتی تھی ۔ پمپ کے مخالف فُٹ پاتھ پر پہنچتے ہی میرے منہ سے بے اختیار نکلا، ’’یہ صاحب چند ماہ سے زیادہ اس عہدے پر نظر نہیں آتے!‘‘وجہ کا مجھے صحیح علم نہیں مگر کچھ ہی عرصے بعد بھُٹو نے اسلم اظہر کو ایم ڈی کے عُہدے سے فارغ کر دیا۔ یہ خبر ہر طرف پھیل گئی اور ایک دیانت دار انسان قطعاً بیکارِ محض ہو کر رہ گیا۔ایس احمد شاہد میرے اُس وقت سے دوست ہیں جب اُن کی ایڈورٹائزنگ ایجینسی گُلشنِ اقبال میں اُس جگہ کے قریب ہُوا کرتی تھی جہاں آجکل ایک ہسپتال واقع ہے۔ جس زمانے کا یہ ذکر ہے اُس وقت وہ اپنا دفتر الفنسٹن اسٹریٹ کے ساتھ والی سڑک پر منتقل کر چکے تھے۔ ایک دن اُنہوں نے مجھے بلایا اور ایک دستاویزی فلم بنانے کے لیے کہا۔ اُسی میٹنگ میں اسلم اظہر کا ذکر آیا اور ہم نے یہ طے کیا کہ یہ فلم اسلم اظہر سے بنوائی جائے کہ اُنہیںبھُٹو نے بیکار کر دیا ہُوا ہے۔میں تو یہ طے کر کے واپس آ گیا مگر مجھے علم نہیں کہ وہ فلم اسلم اظہر صاحب نے بنائی یا نہیں۔(آج شاہد سے معلوم ہُوا وہ پراجیکٹ شاید عمر قریشی کی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کو منتقل ہو گیا تھا۔ آگے کیا ہُوا شاہد کو بھی یاد نہیں۔یہ یاد رہے کہ عمر قریشی اور بھُٹو باہم دوست تھے اور امریکہ کی برکلے یونیورسٹی میں اکٹھے پڑھتے رہے تھے ،جہاں بمبئی میں بھٹو کے بڑے ، ممکنہ طور پر سوتیلے ،بھائی دلاور ؔنے نرگس کی والدہ ،جدن بائی کی شکایت پربھٹو کو امریکہ بھجوا دیاتھا۔ حوالہ پاکستانی فلم ہدایتکار لقمان ؔکی آرٹس کونسل کراچی لائبریری میں رکھی کتاب)اُنہی دنوں ایک روز محسن علی نے مجھے کہا کہ اسلم صاحب مجھے یاد کر رہے ہیں۔ میں اسلم اظہر کے ہاں پہنچا جو اُن دنوں سندھی مسلم سوسائٹی میں کمرشل ایریا میں واقع کسی فلیٹ بلڈنگ کی پہلی منزل کے فلیٹ میں رہائش پذیر تھے۔ میں نے جب اسلم اظہر صاحب کو دیکھا تو میرا دل عروج و زوال کی مجسم داستان کو دیکھ کر رو پڑا۔ جتنا پیار مجھے اُس دن اسلم اظہر پر آیاکبھی نہ آیا تھا۔وہ کہہ رہے تھے،’’بختیار میں نے چاروں طرف نظر ڈالی مجھے تم سے بہتر پروڈیوسر کوئی نظر نہیں آیا ۔ تم میرے لیے ایک سیریل ڈائریکٹ کردوگے؟‘‘حقیقت یہ ہے کہ میں اتنا رقیق ہو گیا تھا کہ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کہوں اور کیا کروں۔ اسلم اظہر ، پی ٹی وی کا دیوتا اورمجھ ناچیز کو اس طرح سراہ ‘رہا ہے!!!میں نے اتنا کم خود کو کبھی محسوس نہ کیا تھا۔ جی چاہ رہا تھا خود کو اسلم اظہر پر قربان کر دوں۔مجھ سے جو بھی ہو سکے میں کر ڈالوں۔ اسلم اظہر کا قد اتنا بڑا آج تک مجھے نظر نہ آیا تھا۔ کہاں وہ وقت کہ ،"If you forgot a single word tonight I'll see to it that you are not booked as long as I am here." اور کہاں یہ وقت کہ اسلم اظہر مجھ سے یہ پوچھے،’’میرے لیے ایک سیریل ڈائریکٹ کر دو گے؟‘‘ بس میں رویا نہیں مگر دل خون کے آنسو رو رہا تھا!! میں بمشکل یہ کہہ سکا ، ’’کیوں نہیں اسلم صاحب ! میں دل و جان سے حاضر ہوں۔‘‘۔ وہ مطمئن نظر آئے۔پھر چائے پر ادھر اُدھر کی باتیں ہوئیں۔یہ یاد نہیں کیا باتیں ہوئیں مگر ہمارے ماضی کے تعلقات پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ چند منٹ بعد میں نے رخصت کی اجازت چاہی تو اسلم صاحب مجھے دروازے تک چھوڑنے آئے۔ اچانک بولے،’’بختیار تم معاوضہ کیا لو گے؟‘‘ میرے قدم جم سے گئے۔ انتہائی عاجزی سے میں نے کہا، ’’ نہیں اسلم صاحب میں آپ سے کوئی معاوضہ نہیں لوںگا مگر یقین رکھیں میں اُسی محبت اور شوق سے آپ کے لیے کام کروں گا جیسا کہ میں کرتا ہوں، بل کہ اُس سے بھی زیادہ۔‘‘انہوں نے بھی اُسی محبت سے کہا،’’ نہیں بختیار معاوضہ تو لینا پڑے گا مگر اس پر ہم بعد میں بھی بات کر لیں گے۔"Thank you very much." ۔میں یہ کہہ کر"Please don't mention it, so very nice of you." اور ہاتھ ملا کر رخصت ہُوا .۔(جاری ہے)