مقبوضہ کشمیر، آرٹیکل 370کی بحالی کیلئے سیاسی سرگرمیاں
گزشتہ برس 5 اگست کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا آرٹیکل 370 منسوخ کر کے اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا اور یوں جموں و کشمیر اور لداخ براہ راست نیو دہلی کے زیر انتظام آگئے تھے۔ بھارت کی اس تقسیمی دہشت گردی کو نہ ہی کشمیریوں نے مانا اور نہ ہی دنیا نے اس کو قبول کیا۔ چین نے بھی لداخ کو بھارتی عملداری میں دینے پر بھرپور احتجاج کیا کیونکہ چین لداخ کو اپنا علاقہ گردانتا ہے۔ بھارت کی اس تقسیم کو چودہ ماہ سے زائد عرصہ ہونے کو آیا مگر ابھی تک کشمیریوں نے اس کو تسلیم نہیں کیا۔ علاقے میں کرفیو نافذ ہے۔ ذرائع آمدورفت اور ذرائع ابلاغ پر مکمل پابندی ہے۔ اخبار، انٹرنیٹ، ٹیلی فون وغیرہ سب بند ہیں۔ کشمیری اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ گزشتہ برس ہی کشمیر کی اہم سیاسی شخصیتوں کو گھروں اور جیلوں میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ سابقہ وزرائے اعلیٰ مقبوضہ کشمیر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ کو ایک سال کے دوران اور محبوبہ مفتی کو چودہ ماہ بعد رہائی ملی۔ رہائی ملنے کے بعد تینوں سابقہ وزرائے اعلیٰ نے ملاقات میں فیصلہ کیا کہ مقبوضہ کشمیر کی سیاسی جماعتیں آرٹیکل 370 کی بحالی کیلئے تحریک چلائیں گی۔ نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، پیپلز کانفرنس، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، کانگریس اور عوامی نیشنل کانفرنس نے مشترکہ بیان میں کہا 5اگست 2019 کے مرکزی حکومت کے فیصلے نے جموں و کشمیر اور نئی دہلی کے درمیان تعلقات کو تبدیل کردیا۔ جماعتوں نے ایک مشترکہ اعلامیہ میں کہا ہے کہ ہم لوگوں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہماری تمام سیاسی سرگرمیوں کا محور جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی بحالی ہوگا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے لئے یہ مشکل اور تکلیف دہ وقت ہے ۔ ہم انہیں ان حالات میں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔گزشتہ برس مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے ایک دن قبل بی جے پی کے علاوہ کشمیرکی باقی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما فاروق عبداللہ کے گھر پر جمع ہوئے تھے اور گپکار اعلامیہ جاری کیا تھا جس کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ اگر مرکزی حکومت کی جانب سے دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کو ختم کیا جاتا ہے تو اس کے خلاف متحدہ جدوجہد کی جائے گی۔ (جاری ہے)