بلاول کو شرمندگی ہوتی ہے کہ اس کے دو پولیس افسروں کو مبینہ طور پر اغوا کیا گیا۔مگر بلاول کو اگر کوئی بتائے کہ اس کی پارٹی کے بانی اور نانا بھٹو نے آرمی چیف جنرل گل حسن اور ایئر مارشل رحیم خان کو اغوا کیا تھا تو بلاول کی شرمندگی کی سنگینی کا عالم کیا ہو گا، شاید وہ پوری زندگی نظریں اوپر اٹھا ہی نہ سکے۔ جنرل گل حسن تو بھٹو کے محسن بھی تھے جنہوںنے سقوط ڈھاکہ کے بعد خصوصی طیارہ بھیج کر انہیں پاکستان منگوایاا ور ملک کا سویلین چیف مارشل لاایڈ منسٹریٹر بنوا دیا تھا، مارچ انیس سو بہتر میں آرمی چیف جنرل گل حسن اور ایئر چیف رحیم خان لاہور میں تھے، مصطفی کھر کو بھٹو نے ہدایت کی کہ ان دونوں کو ایک کار میں بٹھائو اور ایک ہنگامی میٹنگ کے بہانے بذریعہ جی ٹی روڈ پنڈی لائو، وہ در حقیقت ان دونوں اعلی ترین افسران کے اغوا کا ڈرامہ تھا اور صرف اغوا نہیں بلکہ انہیںپوٹھو ہار کی پہاڑیوں میں گھما پھرا کر اس قدر اذیت دی کہ انہوںنے پہلے سے ٹائپ شدہ استعفے کے کاغذ پر دستخط کر دیئے،کامیاب اغواا ور جبری ا ستعفے حاصل کر کے بھٹو نے اس دوران جنرل ٹکا خان کو آرمی چیف بنا دیا، اور ایئر مارشل ظفر چودھری کو ایئر چیف بنا دیا، جنرل ٹکا خان وہی حضرت ہیں جنہوںنے مشرقی پاکستان میں اس آپریشن کاآغاز کیا تھا جس پربھٹو نے کہا تھا کہ خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا، یوں ان کی حکمرانی کے لئے مغربی پاکستان بچا لیا گیا تھا ۔ اسی جنرل ٹکا خان کو بلوچستان میں فوجی چڑھائی کے لئے بھی بھیجا گیا تھا۔ اور یہی جنرل ٹکا خان ریٹائر ہوئے توانہیں گورنر پنجاب بھی بنایا گیاا ور انہیں پاکستان کی اس وقت کی سب سے بڑی جمہوری پارٹی پی پی پی کے سیکرٹری جنرل کا منصب عطا کیا گیا۔
بھٹو کو اغوا کا شوق تھا۔ اعلی ترین فوجی ا فسران کے اغوا کے بعد انہوںنے اپنے ہی ساتھیوں کے پر اسرار اغوا کی سازش کی ا ور افتخار تاری ا ور کئی پارٹی لیڈروں کو اغوا کر کے دلائی کیمپ میںبند کر دیا، اغوا سے بھی جی نہ بھرا تو بھٹو نے ایک اصول پسند پارٹی لیڈر معراج محمد خان کو قید و بند میں ڈالا اور ان پر بے رحمانہ تشدد کیا، پارٹی لیڈروں کو نشانہ بنانے کے بعد بھٹونے جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد کو پکڑ کر سلاخوں کی پیچھے دھکیل دیاا ور ان کے ساتھ وہ بہمانہ سلوک کیا گیا جسے نقل کرتے ہوئے میرے قلم کی آنکھیں جھک جاتی ہیں اور یہ شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے، ملک قاسم کے ساتھ جو ہوا اس کی وجہ سے ساری عمر ان کی کمر سیدھی نہ ہو سکی ۔
پتہ نہیںبلاول کا ان سانحوں پر رد عمل کیا ہو گا۔
بھٹو نے اغوا کی مشق اصل میں اس وقت کی تھی جب وہ ڈیڈی ایوب خان کاوزیر تھا اور محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف صدارتی الیکشن میں وہ ایوب خان کاچیف پولنگ ایجنٹ تھا تواس نے اپنے چہیتے فیلڈ مارشل کو جتوانے اور قائد اعظم کی بہن کی رسوائی کے لئے مغربی پاکستان کے ان تمام کونسلروں کو ایک ماہ کے لئے اغوا کر لیا جنہوںنے ریفرنڈم میں ووٹ دینا تھا اورو وٹ ڈلوا کر انہیں چھوڑا تھا، ان میںسے ایک کونسلر میرے گائوں فتوحی والہ قصور کا کونسلر صوفی عبداللہ سنڈئی بھی تھا جس کے اہل خانہ ہی نہیں پورے گائوں والے پریشان تھے کہ انہیں آسمان نے اٹھا لیا یا زمین نے نگل لیا۔
اغوا کے سانحے بھٹو دو ر کے آخری روز تک جاری رہے اور پی این اے کے نوجوانوں کو چن چن کر اغوا کیا گیاا ور شاہی قلعہ کے عقوبت خانے میں ان کے ناخنوں اور جوڑوں میں میخیں ٹھونکی گئیں ، ان میں( بعد میں سینیٹر بننے والا) طارق چودھری بھی شامل تھا اور ضیا شاہد کو بھی اس عقوبت خانے میںاذیتوں کا شکار بنایا گیا۔
بھٹو کو آزاد صحافت اس قدر عزیز تھی کہ اقتدارمیں آنے سے پہلے ہی ا نہوںنے اعلان کیا تھا کہ وہ سب سے پہلے زیڈ اے سلیری کو فکس اپ کریں گے اور انہوںنے ایسا کر دکھایا، پھر پنجاب پنچ کے بائیں بازو کے اخبار نویس حسین نقی اور دائیں بازو کے ویکلی زندگی ا ور اردوڈائجسٹ کے ڈاکٹر اعجاز قریشی ، الطاف قریشی ا ور مجیب شامی کو پکڑ کر ایک ’’کانگرو‘‘ کورٹ سے طویل قید کی سزا سنائی گئی۔ان کے ڈیکلریشن ختم کر دیئے گئے جس کی وجہ سے میں اپنی پہلی نوکری پر ہوتے ہوئے بے روز گار ہوا۔
بھٹو کو ووٹ کی عزت بھی بے حد عزیز تھی، بلاول نے پتہ نہیں بر طانیہ میں تاریخ پڑھی ہے یا نہیں مگر اسے پتہ ہوناچاہئے کہ ستر کے شفاف ترین الیکشن کے نتائج کو بھٹو نے ماننے سے انکار کر دیا اور ادھر ہم اور ادھر تم کا نعرہ لگا دیا، یحییٰ خان نے اپنا فرض نبھانے کے لئے مجیب کو وزیر اعظم بنانے کا اعلان کر کے قومی اسمبلی کااجلاس ڈھاکہ میں طلب کر لیا مگر بھٹو نے دھمکی دی کہ خبردار پیپلز پارٹی کاکوئی رکن اسمبلی اجلاس میںنہ جائے ورنہ اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی، ایک احمدرضا قصوری نے گستاخی کی اور اس پر قاتلانہ حملہ کروا دیا گیا جس میں اس کا باپ شہید ہو گیا،۔ اسی قتل کے جرم میں بھٹو کو پھانسی ہوئی مگر بھٹو نے جاتے جاتے ستتر میں جوالیکشن کروائے ان میںا سقدر دھاندلی کروائی کہ اپوزیشن نے صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا ۔ یہ بائیکاٹ ایساتھا کہ پولنگ اسٹیشنوں پر الو بول رہے تھے۔یہ تھی وہ عزت جو بھٹو نے ووٹ کو دی ۔ بھٹو کاخیال تھا کہ آرمی چیف اور ایئر چیف کو اغوا کیا جاسکتا ہے تو ایک الیکشن کو اغو اکرنا کونسامشکل کام ہے، واقعی کوئی مشکل کام نہ تھا۔۔۔ بس جان پر کھیل کر ہی ایسا کیا جا سکتا تھا اور بھٹو جان پر کھیل گیا۔
بلاول کے لئے نانا بھٹو کی تاریخ کااتنا ہی سبق کافی ہونا چاہئے۔ اسے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر کم ازکم آئندہ کے لئے ان غلطیوں کو دہرانا نہیں چاہئے۔
٭…٭…٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024