بھارتی لیڈروں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں جن میں وہ برملا یہ دعویٰ کرتے نظر آتے اور سُنائی دیتے ہیں کہ پاکستان کو اندر سے توڑنے کیلئے ہر ممکن کوششیں کی جائیں گی۔ بھارتی فوج کا ریٹائرڈ آفیسر کلبھوشن جو آجکل پاکستان کی حراست میں ہے اس امر کا کھلا ثبوت ہے کہ بھارت پاکستان کو اندرونی طور پر عدم استحکام کا شکار کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ سی آئی اے موساد اور را مشترکہ طور پر پاکستان کیخلاف مختلف نوعیت کی سازشیں کرتی چلی آ رہی ہیں ان خفیہ ایجنسیوں نے مقدور بھر کوشش کی کہ پاکستان ایٹمی قوت نہ بن سکے۔ ایک دو مواقع پر کہوٹہ لیبارٹری کو تباہ کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا جو پاک فوج کی خفیہ ایجنسیوں کی پیشہ ورانہ مہارت کی وجہ سے پورا نہ کیا جا سکا۔ بھارت نے جس طریقے سے ایم کیو ایم کے لیڈر الطاف حسین کو کراچی کو جناح پور بنانے کیلئے استعمال کیا اور پاکستان توڑنے کی سازش کی اسکی تفصیلات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہیں ایسی ویڈیوز بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جو اس سلسلے میں ناقابل تردید ثبوت کے طور پر پیش کی جاسکتی ہیں۔ بلوچستان کراچی اندرون سندھ کے کچھ علاقوں اور خیبر پختونخوا میں علیحدگی پسندی کی خفیہ اور ظاہری تحریکیں چلتی رہی ہیں۔ پاکستان کے عوام کی واضح اکثریت چونکہ محب وطن ہے اس لئے علیحدگی پسندی کی تحریکیں کامیاب نہ ہوسکیں۔ پاکستان کے ایک سینئر صحافی جنہوں نے پاکستان دشمنوں کے بارے میں سنجیدہ تحقیقی کام کیا ہے اور ناقابل تردید شواہد کی بنیاد پر کتب تحریر کی ہیں۔ انہوں نے راقم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سی آئی اے اور را کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ ان کو پنجاب کے صوبے میں کوئی ایسا پاپولر لیڈر مل جائے جو پاک فوج کو کمزور کرنے کیلئے انکے سکرپٹ پر عمل کر سکے۔ پاکستان کی بدقسمتی اور پاکستان دشمنوں کی خوش قسمتی کہ ان کو میاں نواز شریف کی صورت میں ایسا لیڈر مل گیا ہے جو تین بار پاکستان کا وزیراعظم منتخب ہو چکا ہے اور جس کے پاس پنجاب میں ووٹ بینک موجود ہے۔ میاں نواز شریف پنجاب کے پہلے لیڈر ہیں جنہوں نے پاک فوج کو براہ راست نام لے کر تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا ہے۔ بلوچستان حالت جنگ میں ہے، میاں نواز شریف نے بلوچستان کی حساسیت کو نظرانداز کرتے ہوئے کوئٹہ کے جلسے سے انتہا پسندانہ خطاب کیا جس سے انکے اصل عزائم سامنے آگئے، بلاول بھٹو نے کوئٹہ جانے سے گریز کیا۔ میاں صاحب جب بھی ریاست مخالف خطاب کرتے ہیں سب سے زیادہ خوشی بھارت کے اندر منائی جاتی ہے۔
سینئر صحافی کے مطابق یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میاں نواز شریف کے ذاتی مفادات اور خفیہ ایجنسیوں کے مفادات مشترک ہو گئے ہیں۔ میاں نواز شریف چاہتے ہیں کہ ان کیخلاف قائم کیے گئے تمام مقدمات ختم کردیے جائیں ان سے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا مطالبہ نہ کیا جائے۔ پاکستان دشمن ایجنسیوں کا یہ منصوبہ ہے کہ پنجاب کے پاپولر لیڈر کو کو استعمال کرکے پاک فوج کو کمزور کیا جائے اور پاک فوج کے بارے میں عوام کے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کرکے ان کے درمیان خلیج پیدا کر دی جائے۔ پاکستان کے ایک ریٹائرڈ جرنیل نے نام نہ لکھنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان کی ریاست بہت مضبوط ہے، میاں نواز شریف جس راستے پر چل پڑے ہیں، ان کا حال بھی الطاف حسین جیسا ہوگا اور ان کیلئے برطانیہ میں سیاسی پناہ لینے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ ایم کیو ایم کی طرح پاکستان میں بھی میاں نواز شریف کے ووٹ بینک کو نقصان پہنچے گا اور مسلم لیگ نون کے اندر کی تقسیم بھی کھل کر سامنے آجائیگی۔ پی ڈی ایم کی اپوزیشن جماعتیں جو خواب دیکھ رہی ہیں وہ پورا ہونے والا نہیں ہے جمہوریت میں سپیس دینی پڑتی ہے جو اپوزیشن جماعتوں کو دی جا رہی ہے۔ ملک کا اندرونی استحکام مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے ٹیلی فون پر راقم سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے اپوزیشن جماعتوں سے چار ماہ تک طویل مذاکرات کئے اور عوامی و قومی مفادات کے سلسلے میں قانون سازی کیلئے مفاہمت کی کوشش کی۔ اپوزیشن جماعتوں سے یہ مذاکرات صرف اس لئے کامیاب نہ ہوسکے کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے خلاف مقدمات کے سلسلے میں این آر او چاہتی تھیں۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اپنے اس موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ کسی صورت اپوزیشن کے لیڈروں کو این آر او نہیں دینگے۔ ان کو اگر وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونا پڑا تو وہ مستعفی ہو جائینگے اور دوبارہ الیکشن میں جانا گوارا کر لیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اپوزیشن لیڈروں کے نمائندے آرمی چیف سے بھی ملاقاتیں کرتے رہے ہیں مگر جب آرمی چیف نے سیاسی اور عدالتی امور میں مداخلت کرنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے مایوس ہو کر احتجاج کا راستہ اپنایا ہے۔ اپوزیشن کا خفیہ ایجنڈا وہی ہے کہ عوامی دباؤ ڈال کر کرپشن کے مقدمات کے سلسلے میں ریلیف لے سکیں۔ ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ اپوزیشن کا کوئی حربہ کامیاب نہیں ہو گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو دونوں بڑے محتاط ہیں وہ مسلم لیگ نون کے ریاست مخالف بیانیے سے اتفاق کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ پی پی پی شہیدوں اور غازیوں کی جماعت ہے۔ پی پی پی کے لیڈروں نے پاکستان اور عوام کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہوئے ہیں اس لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ پی پی پی کے لیڈران اس حد تک چلے جائیں جس حد تک میاں نواز شریف جا چکے ہیں۔ اعتماد کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پی پی پی کسی نہ کسی مرحلے پر اپوزیشن اتحاد سے الگ ہو جائیگی۔ میاں نواز شریف اپنے ریاست مخالف بیانیہ کی وجہ سے عوام میں ایکسپوز ہوتے جائینگے۔ میاں نواز شریف کو ریاست مخالف بیانیہ کے ساتھ اپنی جماعت کے لیڈروں خاص طور پر اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو اپنے ساتھ رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ احتساب کا شکنجہ مزید سخت ہوگا۔ نون لیگ کے اکثر لیڈر میاں نواز شریف کے بیانیے کی وجہ سے گرفتار کر لیے جائینگے۔ کئی لیڈر رضا کارانہ طور پر خود ہی گرفتار ہونا پسند کرینگے تاکہ انہیں ریاست مخالف احتجاج کا حصہ نہ بننا پڑے۔ لیڈروں کی گرفتاریوں کے بعد پی ڈی ایم کی تحریک کمزور پڑ جائے گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024