نوازشریف کی طبیعت بدستور تشویشناک،میگاکٹس لگانے پر نوازشریف کے گردے خراب ہونے کا خدشہ، ڈاکٹرز شش و پنج کا شکار
سابق وزیراعظم نوازشریف کی صحت کو سنگین خطرات کے باعث ڈاکٹروں نے انہیں اسپتال سے ڈسچارج کرنے سے انکار کردیا۔
سابق وزیراعظم نواشریف گزشتہ 7 روز سے لاہور کے سروسز اسپتال میں زیر علاج ہیں جہاں اسپیشل میڈیکل بورڈ کی نگرانی میں ان کا علاج کیا جارہا ہے۔میڈیکل بورڈ کے مطابق گزشتہ روز نوازشریف کے پلیٹیلیٹس میں دوبارہ کمی ہوگئی اور ان کے پلیٹیلیٹس 45 ہزار سے کم ہوکر 25 ہزار ہوگئے۔
بورڈذرائع کے مطابق نوازشریف کو دل کےعارضے کی ادویات کی وجہ سے پلیٹ لیٹس میں کمی ہوئی لہٰذا انہیں ہارٹ اٹیک کے بعد دی جانیوالی دوائی بندکردی گئی تھی جس کے بعد ان کی پلیٹیلیٹس کی تعداد بڑھ جائے گی۔اسپتال ذرائع کا کہنا ہےکہ ڈاکٹروں نے نوازشریف کو اسپتال سے ڈسچارج کرنے سے انکار کردیا ہے اور انہیں پلیٹیلیٹس معمول پر آنے تک اسپتال میں ہی رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
اسپتال ذرائع نے مزید بتایا کہ نوازشریف کی صحت کو سنگین خطرہ ہے اس لیے انہیں اسپتال سے بھجوانے کا رسک نہیں لیا جاسکتا۔
ذرائع کا کہنا ہےکہ نوازشریف کا علاج میڈیکل بورڈ کے لیے بڑا چیلنج بن گیا ہے، ان کے پلیٹیلیٹس بڑھانے کیلئے اسٹیرائیڈز کا استعمال کیا جارہا ہے اور اسٹیرائیڈز دینے سے نوازشریف کا بلڈ پریشر اور شوگر خراب ہوجاتی ہے۔ذرائع نے بتایاکہ نوازشریف کے دل اور گردوں پرتوجہ دیں تو پلیٹیلیٹس گررہے ہیں اور پلیٹیلیٹس پر توجہ دیں تو دل اور گردوں کے مسائل بڑھ رہے ہیں، ان کے گردوں کے ٹیسٹ خراب آئے ہیں جس کے باعث ان کی دل کی ادویا روک دی گئی ہیں۔
ذرائع کے مطابق 25 ہزار پلیٹیلیٹس پر دل کی دوائیں نہیں دے سکتے، نوازشریف کو دل کا سنگین مسئلہ ہے لیکن پلیٹیلیٹس کا گرنا بھی تشویشناک ہے۔
بورڈ ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا بلڈ یوریا بھی بڑھ گیا ہے جو نارمل رینج 50 سے بڑھ کر 63 ہوگیا ہے، میڈیکل بورڈ نواز شریف کے فیملی ڈاکٹر سے مشورہ کے بعد مزید فیصلہ کرسکے گا۔
سربراہ میڈیکل بورڈ ڈاکٹر محمود ایاز کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی حالت تاحال ناساز ہے، ان کے پلیٹلیٹس کی تعداد غیر متوقع طور پر تیزی سے اپ ڈاؤن ہو رہی ہے، ابھی پلیٹلیٹس کی تعداد 25 ہزار ہے تاہم ان کی طبیعت 30 ہزار تک پہنچنے کے بعد نارمل تصور ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک نواز شریف نے کسی اور اسپتال جانے کی خواہش ظاہر نہیں کی جب کہ آج ہونے والے ٹیسٹ کے نتائج سے پنجاب حکومت کو بھی آگاہ کیا جائے گا۔