چین کی قیادت اور عوام اسی تناظر میں وزیراعظم عمران خان کے دورۂ چین کے منتظر ہیں
چین نے اعلان کیا ہے کہ سی پیک میں سعودی عرب سمیت کسی بھی ملک کی شمولیت کا خیرمقدم کیا جائیگا‘ پاکستان کو تنہاء نہیں چھوڑیں گے‘ عوام کو خوشخبری دینگے‘ دو ارب 70 کروڑ ڈالر پہلے ہی پاکستان کو دے چکے ہیں‘ چینی حکومت اور عوام وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دورۂ چین کے شدت سے منتظر ہیں‘ انہیں بڑی امدادی رقم فراہم کرینگے۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان میں چین کے سفیر یائوجنگ اور نائب سفیر یائولی جیان نے گزشتہ روز اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان کے مجوزہ دورۂ چین اور سی پیک منصوبے کے حوالے سے تھنک ٹینکس اور میڈیا کو بریفنگ اور بعدازاں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کے دوران کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم پاکستان چین میں اپنے ہم منصب کے علاوہ صدر عوامی جمہوریہ چین سے بھی ملاقات کرینگے۔ انکے بقول پاکستان کی تعمیر میں چین بھی اپنا حصہ ڈالنا چاہتا ہے۔ چین پاکستان کو پرامن اور مستحکم دیکھنا چاہتا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کا کردار اہم ہے۔ سی پیک سے متعلق یہ اندازے غلط ہیں کہ اسکے تمام فوائد چین کو نہیں مل رہے۔ انہوں نے بتایا کہ سی پیک کے 22 منصوبوں پر 19‘ ارب ڈالر خرچ کئے جارہے ہیں۔ دنیا کی کچھ طاقتیں چین کو ابھرتا ہوا خوشحال ملک نہیں دیکھنا چاہتیں اور اسی تناظر میں انہیں چین کی پاکستان کے ساتھ دوستی بھی کھٹکتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ سی پیک منصوبہ پاکستان پر چین کے اعتماد کا مظہر ہے جس میں شفافیت نہ ہونے کا تاثر قطعی غلط ہے۔ سی پیک پر ہر قسم کے خدشات دور کرینگے۔ اس موقع پر نائب سفیر یائولی جیان نے بتایا کہ چین نے پاکستان کو دو ارب 70 کروڑ ڈالر فراہم کر دیئے ہیں‘ یہ رقم چین کے بنک کی جانب سے پاکستان کے مرکزی بنک میں آچکی ہے۔ انکے بقول سی پیک کے ماتحت انرجی کے تمام منصوبے 2022ء تک مکمل کرلئے جائینگے۔
چین درحقیقت ہمارا وہ پڑوسی ملک ہے جس کے ساتھ ہمارے مراسم دنیا میں ضرب المثل بن چکے ہیں۔ یہ بے لوث دوست اس خطے میں کشمیر سمیت تمام قومی امور پر ہمارے کاز کی بڑھ چڑھ کر وکالت کرتا اور ہمارے موقف کو تقویت پہنچاتا ہے جبکہ ہمارے دفاع کے معاملہ میں بھی یہ ایک مضبوط ڈھال ہے جس نے بھارت کی ہمارے ساتھ دیرینہ دشمنی کا ادراک کرتے ہوئے اسکے ساتھ اپنے دیرینہ تجارتی تعلقات کی بھی کبھی پرواہ نہیں کی اور ہمیں دی جانیوالی بھارتی دھمکیوں کا ہمیشہ مسکت جواب دیا ہے جبکہ سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر بھی چین بھارت کے مقابل ہمیشہ پاکستان کے موقف کی حمایت کرتا ہے اور اس پر عالمی اقتصادی پابندیاں لگوانے کی بھارتی سازشیں اسکی پیش کردہ قرارداد ویٹو کرکے ناکام بھی بنا چکا ہے۔ اسی طرح چین نے نیوکلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کیلئے بھی محض ہمارے کاز کی خاطر بھارت کی مخالفت کی اور بھارت کو رکنیت دلوانے کی امریکی کوششیں ناکام بنائیں۔ یقیناً اسی تناظر میں پاکستان چین دوستی کو شہد سے میٹھی‘ سمندر سے گہری اور ہمالیہ سے بلند گردانا جاتا ہے اور اس خطے کو اپنی دسترس میں کرنے کے خواہش مند امریکہ کو یہی پرخاش ہے کہ پاکستان چین باہمی تعاون و دوستی سے اسکے واحد سپرپاور بننے کے خواب چکناچور ہو سکتے ہیں۔ ہمارے دیرینہ دشمن بھارت کو بھی پاکستان چین دوستی اسی لئے کھٹکتی ہے کہ پاکستان کیلئے چین کے دفاعی حصار بننے سے اسکے پاکستان کی سالمیت پارہ پارہ کرنے کے خواب ٹوٹے ہیں جبکہ اب پاکستان چین اقتصادی راہداری کے مشترکہ منصوبے نے پاکستان کی معیشت کے استحکام اور یہاں کے عوام کی خوشحالی کی راہ ہموار کرکے پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارتی عزائم کو مزید زک پہنچائی ہے۔
چین چونکہ خود بھی اروناچل پردیش کے معاملہ میں بھارت کا ڈسا ہوا ہے جس نے چین کے اس علاقے میں اپنی فوجیں داخل کرکے اس پر اپنا تسلط جمانے کی کوشش کی تھی تاہم جفاکش چینی افواج کے ہاتھوں اسے منہ کی کھانا پڑی تھی چنانچہ اس بھارتی بدنیتی کے تناظر میں ہی اسکے مقبوضہ کشمیر میں فوجی تسلط کیخلاف چین ہمارے موقف کے ساتھ کھڑا ہے جس نے نہ صرف کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیا بلکہ کشمیری عوام کو اپنے ملک میں آمدورفت کی ویزہ فری سہولتیں بھی فراہم کر رکھی ہیں۔ اس پس منظر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سی پیک نے پاکستان چین دوستی کی بنیاد نہیں رکھی بلکہ اس بنیاد کو مزید مضبوط و مستحکم کیا ہے جبکہ یہ راہداری منصوبہ صرف پاکستان اور چین ہی نہیں‘ اس پورے خطے کے دنیا کے ساتھ روابط اور اس کیلئے شاہراہ ترقی کے دروازے کھول رہا ہے۔ اس طرح سی پیک سے وابستہ ہونیوالے ایشیائی‘ مشرقی وسطیٰ کے اور یورپی ممالک تک پاکستان کیلئے دفاعی حصار بن جائینگے کیونکہ پاکستان پرامن اور مستحکم ہوگا تو سی پیک کے ذریعے دنیا کی تجارتی منڈیوں کے باہمی روابط استوار رہ پائیں گے۔ دنیا میں اسی بنیاد پر سی پیک کی اہمیت بڑھی ہے کہ یہ اقوام عالم میں ایک صنعتی اور تجارتی انقلاب کی راہ ہموار کررہا ہے اور گیم چینجر کی حیثیت سے پرامن دنیا کی نوید سنا رہا ہے۔
یہ صورتحال امریکہ اور بھارت کو اس لئے سوٹ نہیں کرتی کہ وہ اس خطے میں اپنی بالادستی کے تانے بانے بن رہے ہیں۔ امریکہ کے اپنے مفادات ہیں جو وہ اس خطے میں بھارت کی مدد سے حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ بھارت کا ایک ہی مقصد ہے کہ وہ پاکستان کی سلامتی خاکم بدہن ختم کرکے اس پورے علاقے پر اپنا تسلط جمائے۔ اگر پاکستان چین اقتصادی راہداری کے ذریعے اس خطے میں امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کا مؤثر توڑ ہورہا ہے تو ان دونوں ممالک کی سر توڑ یہی کوشش ہوگی کہ کسی نہ کسی طرح سی پیک کو سبوتاژ کیا جائے۔ اب امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کا یہی ایک ایجنڈا ہے جس کے تحت کبھی بھارت چین میں پاکستان کیلئے غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کبھی بھارتی ایماء پر امریکہ سی پیک کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرتا ہے تاہم یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ دونوں ممالک کی سول اور عسکری قیادتوں کو سی پیک کیخلاف جاری ان علاقائی اور عالمی سازشوں کا مکمل ادراک ہے اس لئے ان میں کسی قسم کی غلط فہمی پیدا ہونے کے بجائے دوستی اور اعتماد میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ البتہ یہ تکلیف دہ امر ضرور ہے کہ ہمارے ملک میں موجود کچھ عناصر جو سابق اور موجودہ حکومت کا بھی حصہ ہیں‘ امریکی‘ بھارتی ایجنڈے کے مطابق خود بھی سی پیک کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرکے پاکستان اور چین کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے ہیں۔
یہ منصوبہ یقیناً حرف آخر نہیں اور وقت کی ضرورتوں کے مطابق اس میں تبدیلی اور توسیع بھی ہوتی رہے گی جس کے بارے میں وزیراعظم عمران خان اپنے دورۂ بلوچستان کے موقع پر پہلے ہی عندیہ دے چکے ہیں تاہم اس منصوبے میں کسی قسم کی رکاوٹ قابل قبول ہو سکتی ہے نہ اس پر امریکی بھارتی کاز کو تقویت پہنچانے کا باعث بننے والے تحفظات کا کسی کو راستہ کھولنے دینا چاہیے۔ اب تک سی پیک کے حوالے سے ملک کے اندر اور باہر سے جتنے بھی تحفظات سامنے آئے ہیں‘ ان سب کا چینی حکام کی جانب سے ہی مسکت جواب دیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے کا ٹھوس پیغام بھی دے کر سی پیک کے مخالفین کے منہ بند کئے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دو ماہ قبل کے دورۂ چین سے بھی یقیناً سی پیک کیخلاف جاری علاقائی اور عالمی سازشیں ناکام بنانے میں مدد ملی جبکہ اب وزیراعظم عمران خان کے مجوزہ دورۂ چین سے سی پیک کی بنیاد ہی مستحکم نہیں ہوگی بلکہ پاک چین لازوال دوستی کے چار وانگ عالم میں مزید ڈنکے بجیں گے۔
آج ہم اقتصادی طور پر جن مشکلات سے دوچار ہیں جس کا پی ٹی آئی کی حکومت کو اقتدار میں آتے ہی سامنا کرنا پڑا اور ملکی معیشت کو ان مشکلات سے نکالنے کیلئے امدادی پیکیج کی خاطر آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر مجبور ہونا پڑا‘ اگر سی پیک کی بنیاد پر ہماری یہ اقتصادی مشکلات آئی ایم ایف کے قرضوں کی واپسی کا راستہ ہموار کرکے دور کی جاسکتی ہیں تو اس سے بڑی نعمتِ غیرمترقبہ ہمارے لئے اور کیا ہو سکتی ہے۔ برادر سعودی عرب کی جانب سے پہلے ہی ہمارے لئے حوصلہ افزاء معاونت کا راستہ کھولا جاچکا ہے جبکہ برادر چین بھی ہماری اقتصادی معاونت میں پیش پیش ہے اور مزید پیشکش بھی کررہا ہے تو پاکستان چین دوستی جن قوتوں کو کھٹکتی ہے انکے سینے پر مزید مونگ دلنے کیلئے اس دوستی کو مزید مستحکم کیا جانا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان کا مجوزہ دورۂ چین اس معاملہ میں یقیناً سنگ میل ثابت ہوگا۔ ہمیں چین کے اعتماد میں اپنی جانب سے بہرصورت کوئی کمی پیدا نہیں ہونے دینی چاہیے۔