آغا شورش کاشمیری کو ایک عہد کہا جائے، عہد پرور لکھا جائے یا عہد آفریں شخصیت تحریر کریں، برصغیر پاک و ہند ایسے ہمہ جہد اور ہشت پہلو عالی مرتبت شخصیات سے مالا مال ہے جو ایک وقت میں شعر و سخن میں دسترس رکھتے ہوں۔ اعلیٰ نثر اور کمال انشا پرداز ہونے کے ساتھ فن خطابت میں ملکہ حاصل رہی ہے۔ یہ لوگ ایک وقت میں باکردار اور اعلیٰ گفتار کے قومی رہنما بلند پایہ صحافی ہونے کے علاوہ بہترین استاد اور عالم دین بھی تھے۔ جناب سرسید کے بعد مولانا حالی، شبلی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی اور مولانا ظفر علی خان کا نام قابل ذکر ہے پھر مولانا عبدالکلام آزاد، امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری، علامہ عنایت اللہ مشرقی ہماری تاریخ کے دمکتے ستارے ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں مسلمانان برصغیر کی تربیت، فلاح اور آزادی کیلئے وقف کر دی تھیں۔ اسی کہکشاں کے سلسلے کا روشن تارا امرتسر کا نوجوان عبدالکریم تھا جو بعد میں عزت و شہرت کے آسمان پر آغا شورش کاشمیری کے نام سے نصف صدی سے زیادہ عرصہ دمکتا رہا ۔لفظوں کی روانی اور جملوں کی ضوفشانی سے صاحب نظر وفکر کے دلوں پر حکمرانی کرتا رہا ۔شورش بولتا تھا کہ موتی رولتا تھا اس کی تحریر پڑھ کر تقریر سُن کر بوڑھے بھی جواں ہو جاتے۔ امیر شریعت سید عطااللہ شاہ بخاری ان کی تقریر سُن کر بے اختیار کہہ اٹھے کہ شورش کی تقریر سُن کر یوں محسوس ہوا کہ بوڑھا عطا اللہ شاہ جوان ہوگیا گویا بخاری صاحب کو جناب شورش میں اپنی جوانی کا عکس محسوس ہوتا تھا۔ آپکی سیاسی علمی ادبی تربیت کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ گھر میں ’’زمیندار‘‘ اخبار آتا اور مسجد شہید گنج کی تحریک نصف نہار پر تھی عبدالکریم سکول سے فارغ ہوئے تو تحریک شہید گنج کا رخ کیا اور مولانا ظفر علی خان سے قربت میسر آ گئی۔ عبدالکریم پہلے ہی جوش و جذبہ کا سیل رواں تھا، بغاوت و آزادی کا ہدی خواں تھا، شمشیر برہاں تھا، آپ تخلص الفت کرتے اور زمانے میں شورش برپا کر رکھی تھی لہٰذا حسب مزاج الفت کو شورش کا نام دینا مناسب جانا بس مولانا ظفر علی خان تھے۔ تحریک شہید گنج تھی اور شورش کا جذبہ تھا کچھ کر گزرنے کا جنوں تھا۔ مولانا ظفر علی خان کی سیاست، صحافت، خطابت اور عشق خاتم النبیؐ آغا شورش کے مزاج میں سرایت کرتا چلا گیا، خون میں حلاوت کرتا چلا گیا۔ اب شورش بھی برصغیر کا منفرد خطیب مانا جانے لگا۔ سارا ہندوستان انکے نام سے شناسا ہوا۔ آغا صاحب کا ایک سیاسی قد کاٹھ بن گیا جس دوران مسلم لیگ علیحدہ وطن کیلئے کوشاں تھی اس وقت آغا شورش کاشمیری مجلس احرار کے چنیدہ رہنمائوں میں شامل ہو چکے تھے۔ مجلس کے ایک روزنامہ (آزاد) کے ایڈیٹر بن گئے مگر قیام پاکستان کے بعد آغا شورش کاشمیری وطن عزیز کی بقا اور استحکام کیلئے آخری سانسوں تک میدان عمل میں رہے۔ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں پر کڑی تنقید اور اپنے نقطہ نظر کو دلائل کے ساتھ پُرزور انداز میں پیش کرتے ہوئے بڑے استقلال سے کھڑے ہو جانا آغا شورش کا مزاج بن چکا تھا۔ تحریک ختم نبوت آغا صاحب کی زندگی کا اثاثہ عظیم تھا وہ تب تک چین سے نہیں بیٹھے جب تک 1973ء کے آئین میں ختم نبوت کے عقیدے کو شامل کرا کے قادیانیوں کو خارج الاسلام نہ کر لیا۔ آپ نے اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران عمر عزیز کے قیمتی ساڑھے بارہ سال قید و بند کی صعوبتوں کو کشادہ دلی اور وقار کے ساتھ برداشت کرکے گزارے۔ آپ تحریک پاکستان میں تو نہ تھے مگر تعمیر پاکستان میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ پاکستان میں آئین سازی کا مرحلہ ہو یا جمہوری اقدار کے احیاء کی بات ہو ۔پاک بھارت جنگ ہو یا ملک میں مارشل لاء کے ضابطے آڑے آئیں۔ شورش ایک محب وطن رہبر بن کر میدان میں ڈٹے نظر آئینگے۔آپ قادر الکلام شاعر میدان صحافت کے جریں سالار سیاسی سٹیج کے بے تاج بادشاہ تھے۔ راقم کو حافظ شفیق الرحمن کے ساتھ ایک مرتبہ زیارت کا شرف حاصل ہے۔ ویسے انکی تقریر سننے کیلئے سائیکل پر موچی دروازے بھی جاتے تھے یقیناً آغا شورش کاشمیری ایک سحر انگیز شخصیت کے مالک تھے۔ آپ حضرت اقبال کو اپنا حقیقی رہبر تسلیم کرتے فکرِ اقبال کو رائج کرنے کے داعی تھے اپنے ہم عصروں سے مل کر مجلس اقبال قائم کی۔ نظامی برادران سے قریبی مراسم تھے۔ حمید نظامی کی شدید بیماری کی لندن مجید نظامی کو اطلاع جناب شورش نے کی تھی جس کی بدولت مجید نظامی اپنی تعلیم چھوڑ کر فوری طور پر برادر اکبر حمید نظامی تک پہنچے۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو کو ایوب حکومت کے خلاف کھڑا کرنے میں حضرت شورش اور قبلہ مجید نظامی کا اتفاق رائے سے فیصلہ تھا پھر دونوں حضرات نے وزیراعظم بھٹو کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی جس کیلئے شورش کو پس دیوار زنداں جانا ہوا۔ آپ ایک بے باک صحافی اور خطیب ہونے کے علاوہ عاشق رسول بھی تھے۔ آپکی زندگی کے اس پہلو پر امام صحافت مجید نظامی رقم طراز ہیں ’’خاتم النبیینؐ کے کروڑوں غلام یہ گواہی دینگے کہ اپنی ہزار بشری کمزوریوں کے باوجود آغا شورش کاشمیری سرکار دوعالمؐ کے حضور آج سرخرو کھڑے ہونگے کیونکہ انہوں نے ختم نبوت کا علم اس وقت بھی سر بلند رکھا جب وہ میدان میں تنہا رہ گئے تھے۔‘‘
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024