پاکستان کے ’بھولے بادشاہ‘ اور ہمارے ’پیر سائیں‘ اچانک یوں ہمارے سر پر آن کھڑے ہوئے کہ ہم جیسے مرید باصفا بھی ان کے قدم لینے کی سعادت سے محروم رہ گئے! یہ ستم شاید یوں برپا ہوا کہ ہم ’دوری‘ میں تین پانیوں میں تین بار اُبالے کھائی بھنگ کی پتیاں اور چھلے ہوئے بادام کچھ ایسی تن دہی سے ’یک جان‘ کرنے میں محو تھے کہ ہمیں ’خبر‘ ہی نہ ہو پائی کہ ڈیرا تو کب کا آباد ہو چکا ہے! حتیٰ کہ ہمارے دونوں ہاتھوں کے سہارے گھومتے اور ’کار یک جائی‘ فرماتے ڈنڈے کے ساتھ آراستہ گھونگھرﺅں کی چھن چھن میں سے ایک دل نشین آواز کا چہرہ طلوع ہوا: دنیا چاند پر پہنچ گئی اور تم ابھی تک یہاں بیٹھے بھنگ گھوٹ رہے ہو! ہم نے شہد سے بھی زیادہ ’آشنا مٹھاس بھرے لہجے کے خدوخال پہچانتے ہی ہاتھ باندھ کر عرض کی، ’پیر سائیں! بس یہ ’دَوری‘ حلق سے اتارتے ہی میں ادھر نکلنے ہی والا تھا!
’لوگ چاند پر پہنچ گئے!‘ یہ ’خبر‘ پیر سائیں کی زبانی سننے کے بعد ہمیں زندگی میں پہلی بار یقین آیا کہ یہ ’گپ‘ یا ’خواہش‘ نہیں، یہ تو ایک ’حقیقت‘ ہے اور واقعی ’خبر‘ کے درجے پر فائز ہو چکی ہے! ہم تو اسے گزشتہ شب تک کسی ’بھنگڑ خانے‘ کے ’افواہ ساز کارخانے‘ کی طرف سے چھوڑی گئی، ایک کامیاب ’ہوائی‘ سے زیادہ کوئی اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں تھے! اب انہوں نے فرمایا ہے کہ پاکستانی قوم مردہ پرست ہے تو ہم سوچ رہے ہیں: سچ کہا! حق! بابا حق! اور پھر انہوں نے ارشاد کیا کہ یہ قوم کسی کے جانے کے بعد اس کے اچھے کاموں کی تعریف کرتی ہے تو ہمارے اندر سے بے ساختہ آواز آئی، ’آوے ای اوے!‘ اور ہم نے دیکھا کہ ہمارے گرد بیٹھے پارٹی کارکنوں نے چور آنکھوں سے دروازے کی طرف دیکھنا شروع کر دیا کہ ادھر وہ آئیں اور ادھر وہ خود کسی طرف کھسک لیں! لیکن جب انہوں نے یہ فرمایا کہ پاکستان 8 قدم آگے بڑھ کر 42ویں نمبر سے 36ویں نمبر پر نہیں آیا بلکہ کرپشن کم ہونے کے بعد 36ویں نمبر سے اتر کر 42ویں نمبر پر آ گیا ہے تو ہم دست بستہ کھڑے ہو گئے، ’دَوری‘ اٹھائی حلق میں لنڈھائی اور چاند کی طرف اڑنے لگے! خوش فہمی کی بھی حد ہوتی ہے! ہم نے پاﺅں پٹخ کر اُڑان بھری ہی تھی کہ آواز آئی: ’جس چیز کی حد ہوتی ہے! اس کی انتہا بھی ہوتی ہے!‘، پیر سائیں کے الفاظ نے ہمارے پاﺅں پکڑ لئے ’چاند گاڑی‘ کا سفر (م¶خر) ہو گیا! ہمارے ایک پیٹی بھائی نے پیر سائیں کے سامنے درخواست گزاری کہ اسے، اس کی سیکرٹری سے شادی کی اجازت مرحمت فرما دی جائے! تو ’پیر سائیں‘ نے اس سے پوچھا، ’سیکرٹری سے ہی کیوں؟‘ تو ہمارے ’مرید باصفا‘ پیر بھائی نے انہیں بتایا، ’وہ ایک ’تابعدار خاتون‘ ہے اور مجھے ایک ’تابعدار بیوی‘ کی تلاش تھی!‘ پیر سائیں مسکرائے اور فرمایا، ’خوش فہمی کی حد بھی نہیں ہوتی اور ’خوش فہمی کی انتہا‘ بھی نہیں ہوتی!‘
پیر سائیں چلے گئے تو ہمارا کیا بنے گا؟ یہ تھا، وہ سوال جس نے ہمیں زمین پر رہ جانے کی بنا پر اپنی گرفت میں لے لیا! لوگ ان کے جانے کے بعد ان کی تعریف کرتے کرتے زبانیں بھی سکھا لیں تو کیا ہماری ’مفلسی میں گیلا آٹا‘ بھی خشک ہو جائے گا؟ قیمتوں میں 120 فی صد اضافہ واپس ہو جائے گا؟ ’سٹیل ملز‘ اور ’واپڈا‘ کی نج کاری رک جائے گی؟ پاکستان ریلوے کی اراضی پر ناجائز قبضوں کا سلسلہ تھم جائے گا؟ یا صرف ’پیر سائیں آیا مٹھے چول لیایا‘ کے نعرے سر ہوں گے! درگاہ پر چراغاں ہو گا! اور تتلیاں دھمالیں ڈال کر خوشبو کے رنگ بکھیریں گی؟
پیر سائیں کے متنازع بیانات اہل پاکستان کے لئے کسی تکلیف کا باعث ہوں تو ہوں! ہم ’مریدانِ باصفا کا لشکر جرار، ان کے بیانات کے لئے ’ارشادات‘ کا لفظ استعمال میں لاتا ہے اور وہ بھی ہمیں آج تک اُسی طرح استعمال میں لا رہے ہیں، جس کا حق انہیں ’پیدائشی‘ طور پر حاصل ہے! ہمارا کام صرف ’آمنا و صدقنا‘ کہنا ہے! ہمیں ان کے چہرے کی طرف بھرپور نگاہ ڈالنے کا بھی اذن نہیں! ان کی بات ان کے ’منہ سے‘ ہمارے کان کی جگہ ہمارے دل میں اترنے کے لئے سفر آغاز کرتی ہے، پیروں اور فقیروں کے درمیان یہ ایک ازلی معاہدہ ہے، پیر کے حصے میں ’اذن‘ آیا ہے اور فقیر کے حصے میں ’تعمیل‘ آئی ہے! جاں دے آنے کی! رُوح بیچ آنے کی! پیر ’حدود‘ نہیں پھلانگ پاتا اور فقیر تعمیل میں ہر حد الانگھ جاتا ہے! یہی رسم فقیری ہے! دیکھیں اب ہمارے لئے کیا حکم آتا ہے؟
محترمہ عاصمہ جہانگیر کی حمایت میں بلند پرچموں میں پیپلز لائرز فورم کی بلندی دیکھنے کے لائق تھی! صدر مملکت بھی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخاب پر آنکھ لگائے بیٹھے تھے! بابر اعوان اور عاصمہ جہانگیر کے درمیان ’اشتراکات‘ نہ ہونے کے برابر ہیں مگر گفتگو کے نتائج حیران کن حد تک یک رُو اور یک سُو ہیں! محترمہ عاصمہ جہانگیر، جناب احمد اویس اور جناب اکرام چودھری کے درمیان برپا معرکہ طے ہو چکا۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق محترمہ عاصمہ جہانگیر کامیاب قرار دی جا چکی ہیں۔ بلاشبہ مقابلہ بہت سخت رہا! اب یہ عیاں ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ عدلیہ کے وقار میں، اضافے کا ایجنڈا جیتا ہے، یا، عدلیہ کے وقار میں ’بے ہنگم اضافے کی کاٹ چھانٹ‘ کے مدعیوں کی بات بنی ہے!
جہاں تک ’وزارت عظمی‘ کا سوال ہے، تو ہم اس کے ’متعلق‘ صرف اتنا کہیں گے کہ چودھری پرویزالہی قومی اسمبلی میں ’متبادل‘ کے طور پر موجود ہیں! اور ’برادری سیاست گری‘ میں ان کا کوئی حریف تو کیا؟ ثانی بھی موجود نہیں! اللہ اللہ! وہ پارٹی جسے تمام برج الٹ دینے کی سعادت حاصل تھی! اب ایک ایک بُرج تلے رک کر ہاتھ دکھاتی پھر رہی ہے!
پیر سائیں نے چاہا اور دعا کے لئے ہاتھ بلند کر دیئے تو اللہ سب کچھ ٹھیک کر دے گا! ضرورت تو اس بات کی ہے، سب مل کر ’پیر سائیں‘ کو جگائیں تاکہ پاکستان کے ’بھولے بادشاہ‘ دُعا کی ضرورت پر ’اتفاق رائے‘ پیدا کرکے ہاتھ بلند کریں اور ہم سب آمین! کہہ کر اُن تمام مصیبتوں سے چھٹکارا پا لیں جنہوں نے ہمیں تاڑ رکھا ہے!
بھولے بادشاہ! دعا کر، دعا!
پاکستان کے ’بھولے بادشاہ‘ اور ہمارے ’پیر سائیں‘ اچانک یوں ہمارے سر پر آن کھڑے ہوئے کہ ہم جیسے مرید باصفا بھی ان کے قدم لینے کی سعادت سے محروم رہ گئے! یہ ستم شاید یوں برپا ہوا کہ ہم ’دوری‘ میں تین پانیوں میں تین بار اُبالے کھائی بھنگ کی پتیاں اور چھلے ہوئے بادام کچھ ایسی تن دہی سے ’یک جان‘ کرنے میں محو تھے کہ ہمیں ’خبر‘ ہی نہ ہو پائی کہ ڈیرا تو کب کا آباد ہو چکا ہے! حتیٰ کہ ہمارے دونوں ہاتھوں کے سہارے گھومتے اور ’کار یک جائی‘ فرماتے ڈنڈے کے ساتھ آراستہ گھونگھرﺅں کی چھن چھن میں سے ایک دل نشین آواز کا چہرہ طلوع ہوا: دنیا چاند پر پہنچ گئی اور تم ابھی تک یہاں بیٹھے بھنگ گھوٹ رہے ہو! ہم نے شہد سے بھی زیادہ ’آشنا مٹھاس بھرے لہجے کے خدوخال پہچانتے ہی ہاتھ باندھ کر عرض کی، ’پیر سائیں! بس یہ ’دَوری‘ حلق سے اتارتے ہی میں ادھر نکلنے ہی والا تھا!
’لوگ چاند پر پہنچ گئے!‘ یہ ’خبر‘ پیر سائیں کی زبانی سننے کے بعد ہمیں زندگی میں پہلی بار یقین آیا کہ یہ ’گپ‘ یا ’خواہش‘ نہیں، یہ تو ایک ’حقیقت‘ ہے اور واقعی ’خبر‘ کے درجے پر فائز ہو چکی ہے! ہم تو اسے گزشتہ شب تک کسی ’بھنگڑ خانے‘ کے ’افواہ ساز کارخانے‘ کی طرف سے چھوڑی گئی، ایک کامیاب ’ہوائی‘ سے زیادہ کوئی اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں تھے! اب انہوں نے فرمایا ہے کہ پاکستانی قوم مردہ پرست ہے تو ہم سوچ رہے ہیں: سچ کہا! حق! بابا حق! اور پھر انہوں نے ارشاد کیا کہ یہ قوم کسی کے جانے کے بعد اس کے اچھے کاموں کی تعریف کرتی ہے تو ہمارے اندر سے بے ساختہ آواز آئی، ’آوے ای اوے!‘ اور ہم نے دیکھا کہ ہمارے گرد بیٹھے پارٹی کارکنوں نے چور آنکھوں سے دروازے کی طرف دیکھنا شروع کر دیا کہ ادھر وہ آئیں اور ادھر وہ خود کسی طرف کھسک لیں! لیکن جب انہوں نے یہ فرمایا کہ پاکستان 8 قدم آگے بڑھ کر 42ویں نمبر سے 36ویں نمبر پر نہیں آیا بلکہ کرپشن کم ہونے کے بعد 36ویں نمبر سے اتر کر 42ویں نمبر پر آ گیا ہے تو ہم دست بستہ کھڑے ہو گئے، ’دَوری‘ اٹھائی حلق میں لنڈھائی اور چاند کی طرف اڑنے لگے! خوش فہمی کی بھی حد ہوتی ہے! ہم نے پاﺅں پٹخ کر اُڑان بھری ہی تھی کہ آواز آئی: ’جس چیز کی حد ہوتی ہے! اس کی انتہا بھی ہوتی ہے!‘، پیر سائیں کے الفاظ نے ہمارے پاﺅں پکڑ لئے ’چاند گاڑی‘ کا سفر (م¶خر) ہو گیا! ہمارے ایک پیٹی بھائی نے پیر سائیں کے سامنے درخواست گزاری کہ اسے، اس کی سیکرٹری سے شادی کی اجازت مرحمت فرما دی جائے! تو ’پیر سائیں‘ نے اس سے پوچھا، ’سیکرٹری سے ہی کیوں؟‘ تو ہمارے ’مرید باصفا‘ پیر بھائی نے انہیں بتایا، ’وہ ایک ’تابعدار خاتون‘ ہے اور مجھے ایک ’تابعدار بیوی‘ کی تلاش تھی!‘ پیر سائیں مسکرائے اور فرمایا، ’خوش فہمی کی حد بھی نہیں ہوتی اور ’خوش فہمی کی انتہا‘ بھی نہیں ہوتی!‘
پیر سائیں چلے گئے تو ہمارا کیا بنے گا؟ یہ تھا، وہ سوال جس نے ہمیں زمین پر رہ جانے کی بنا پر اپنی گرفت میں لے لیا! لوگ ان کے جانے کے بعد ان کی تعریف کرتے کرتے زبانیں بھی سکھا لیں تو کیا ہماری ’مفلسی میں گیلا آٹا‘ بھی خشک ہو جائے گا؟ قیمتوں میں 120 فی صد اضافہ واپس ہو جائے گا؟ ’سٹیل ملز‘ اور ’واپڈا‘ کی نج کاری رک جائے گی؟ پاکستان ریلوے کی اراضی پر ناجائز قبضوں کا سلسلہ تھم جائے گا؟ یا صرف ’پیر سائیں آیا مٹھے چول لیایا‘ کے نعرے سر ہوں گے! درگاہ پر چراغاں ہو گا! اور تتلیاں دھمالیں ڈال کر خوشبو کے رنگ بکھیریں گی؟
پیر سائیں کے متنازع بیانات اہل پاکستان کے لئے کسی تکلیف کا باعث ہوں تو ہوں! ہم ’مریدانِ باصفا کا لشکر جرار، ان کے بیانات کے لئے ’ارشادات‘ کا لفظ استعمال میں لاتا ہے اور وہ بھی ہمیں آج تک اُسی طرح استعمال میں لا رہے ہیں، جس کا حق انہیں ’پیدائشی‘ طور پر حاصل ہے! ہمارا کام صرف ’آمنا و صدقنا‘ کہنا ہے! ہمیں ان کے چہرے کی طرف بھرپور نگاہ ڈالنے کا بھی اذن نہیں! ان کی بات ان کے ’منہ سے‘ ہمارے کان کی جگہ ہمارے دل میں اترنے کے لئے سفر آغاز کرتی ہے، پیروں اور فقیروں کے درمیان یہ ایک ازلی معاہدہ ہے، پیر کے حصے میں ’اذن‘ آیا ہے اور فقیر کے حصے میں ’تعمیل‘ آئی ہے! جاں دے آنے کی! رُوح بیچ آنے کی! پیر ’حدود‘ نہیں پھلانگ پاتا اور فقیر تعمیل میں ہر حد الانگھ جاتا ہے! یہی رسم فقیری ہے! دیکھیں اب ہمارے لئے کیا حکم آتا ہے؟
محترمہ عاصمہ جہانگیر کی حمایت میں بلند پرچموں میں پیپلز لائرز فورم کی بلندی دیکھنے کے لائق تھی! صدر مملکت بھی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخاب پر آنکھ لگائے بیٹھے تھے! بابر اعوان اور عاصمہ جہانگیر کے درمیان ’اشتراکات‘ نہ ہونے کے برابر ہیں مگر گفتگو کے نتائج حیران کن حد تک یک رُو اور یک سُو ہیں! محترمہ عاصمہ جہانگیر، جناب احمد اویس اور جناب اکرام چودھری کے درمیان برپا معرکہ طے ہو چکا۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق محترمہ عاصمہ جہانگیر کامیاب قرار دی جا چکی ہیں۔ بلاشبہ مقابلہ بہت سخت رہا! اب یہ عیاں ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ عدلیہ کے وقار میں، اضافے کا ایجنڈا جیتا ہے، یا، عدلیہ کے وقار میں ’بے ہنگم اضافے کی کاٹ چھانٹ‘ کے مدعیوں کی بات بنی ہے!
جہاں تک ’وزارت عظمی‘ کا سوال ہے، تو ہم اس کے ’متعلق‘ صرف اتنا کہیں گے کہ چودھری پرویزالہی قومی اسمبلی میں ’متبادل‘ کے طور پر موجود ہیں! اور ’برادری سیاست گری‘ میں ان کا کوئی حریف تو کیا؟ ثانی بھی موجود نہیں! اللہ اللہ! وہ پارٹی جسے تمام برج الٹ دینے کی سعادت حاصل تھی! اب ایک ایک بُرج تلے رک کر ہاتھ دکھاتی پھر رہی ہے!
پیر سائیں نے چاہا اور دعا کے لئے ہاتھ بلند کر دیئے تو اللہ سب کچھ ٹھیک کر دے گا! ضرورت تو اس بات کی ہے، سب مل کر ’پیر سائیں‘ کو جگائیں تاکہ پاکستان کے ’بھولے بادشاہ‘ دُعا کی ضرورت پر ’اتفاق رائے‘ پیدا کرکے ہاتھ بلند کریں اور ہم سب آمین! کہہ کر اُن تمام مصیبتوں سے چھٹکارا پا لیں جنہوں نے ہمیں تاڑ رکھا ہے!
’لوگ چاند پر پہنچ گئے!‘ یہ ’خبر‘ پیر سائیں کی زبانی سننے کے بعد ہمیں زندگی میں پہلی بار یقین آیا کہ یہ ’گپ‘ یا ’خواہش‘ نہیں، یہ تو ایک ’حقیقت‘ ہے اور واقعی ’خبر‘ کے درجے پر فائز ہو چکی ہے! ہم تو اسے گزشتہ شب تک کسی ’بھنگڑ خانے‘ کے ’افواہ ساز کارخانے‘ کی طرف سے چھوڑی گئی، ایک کامیاب ’ہوائی‘ سے زیادہ کوئی اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں تھے! اب انہوں نے فرمایا ہے کہ پاکستانی قوم مردہ پرست ہے تو ہم سوچ رہے ہیں: سچ کہا! حق! بابا حق! اور پھر انہوں نے ارشاد کیا کہ یہ قوم کسی کے جانے کے بعد اس کے اچھے کاموں کی تعریف کرتی ہے تو ہمارے اندر سے بے ساختہ آواز آئی، ’آوے ای اوے!‘ اور ہم نے دیکھا کہ ہمارے گرد بیٹھے پارٹی کارکنوں نے چور آنکھوں سے دروازے کی طرف دیکھنا شروع کر دیا کہ ادھر وہ آئیں اور ادھر وہ خود کسی طرف کھسک لیں! لیکن جب انہوں نے یہ فرمایا کہ پاکستان 8 قدم آگے بڑھ کر 42ویں نمبر سے 36ویں نمبر پر نہیں آیا بلکہ کرپشن کم ہونے کے بعد 36ویں نمبر سے اتر کر 42ویں نمبر پر آ گیا ہے تو ہم دست بستہ کھڑے ہو گئے، ’دَوری‘ اٹھائی حلق میں لنڈھائی اور چاند کی طرف اڑنے لگے! خوش فہمی کی بھی حد ہوتی ہے! ہم نے پاﺅں پٹخ کر اُڑان بھری ہی تھی کہ آواز آئی: ’جس چیز کی حد ہوتی ہے! اس کی انتہا بھی ہوتی ہے!‘، پیر سائیں کے الفاظ نے ہمارے پاﺅں پکڑ لئے ’چاند گاڑی‘ کا سفر (م¶خر) ہو گیا! ہمارے ایک پیٹی بھائی نے پیر سائیں کے سامنے درخواست گزاری کہ اسے، اس کی سیکرٹری سے شادی کی اجازت مرحمت فرما دی جائے! تو ’پیر سائیں‘ نے اس سے پوچھا، ’سیکرٹری سے ہی کیوں؟‘ تو ہمارے ’مرید باصفا‘ پیر بھائی نے انہیں بتایا، ’وہ ایک ’تابعدار خاتون‘ ہے اور مجھے ایک ’تابعدار بیوی‘ کی تلاش تھی!‘ پیر سائیں مسکرائے اور فرمایا، ’خوش فہمی کی حد بھی نہیں ہوتی اور ’خوش فہمی کی انتہا‘ بھی نہیں ہوتی!‘
پیر سائیں چلے گئے تو ہمارا کیا بنے گا؟ یہ تھا، وہ سوال جس نے ہمیں زمین پر رہ جانے کی بنا پر اپنی گرفت میں لے لیا! لوگ ان کے جانے کے بعد ان کی تعریف کرتے کرتے زبانیں بھی سکھا لیں تو کیا ہماری ’مفلسی میں گیلا آٹا‘ بھی خشک ہو جائے گا؟ قیمتوں میں 120 فی صد اضافہ واپس ہو جائے گا؟ ’سٹیل ملز‘ اور ’واپڈا‘ کی نج کاری رک جائے گی؟ پاکستان ریلوے کی اراضی پر ناجائز قبضوں کا سلسلہ تھم جائے گا؟ یا صرف ’پیر سائیں آیا مٹھے چول لیایا‘ کے نعرے سر ہوں گے! درگاہ پر چراغاں ہو گا! اور تتلیاں دھمالیں ڈال کر خوشبو کے رنگ بکھیریں گی؟
پیر سائیں کے متنازع بیانات اہل پاکستان کے لئے کسی تکلیف کا باعث ہوں تو ہوں! ہم ’مریدانِ باصفا کا لشکر جرار، ان کے بیانات کے لئے ’ارشادات‘ کا لفظ استعمال میں لاتا ہے اور وہ بھی ہمیں آج تک اُسی طرح استعمال میں لا رہے ہیں، جس کا حق انہیں ’پیدائشی‘ طور پر حاصل ہے! ہمارا کام صرف ’آمنا و صدقنا‘ کہنا ہے! ہمیں ان کے چہرے کی طرف بھرپور نگاہ ڈالنے کا بھی اذن نہیں! ان کی بات ان کے ’منہ سے‘ ہمارے کان کی جگہ ہمارے دل میں اترنے کے لئے سفر آغاز کرتی ہے، پیروں اور فقیروں کے درمیان یہ ایک ازلی معاہدہ ہے، پیر کے حصے میں ’اذن‘ آیا ہے اور فقیر کے حصے میں ’تعمیل‘ آئی ہے! جاں دے آنے کی! رُوح بیچ آنے کی! پیر ’حدود‘ نہیں پھلانگ پاتا اور فقیر تعمیل میں ہر حد الانگھ جاتا ہے! یہی رسم فقیری ہے! دیکھیں اب ہمارے لئے کیا حکم آتا ہے؟
محترمہ عاصمہ جہانگیر کی حمایت میں بلند پرچموں میں پیپلز لائرز فورم کی بلندی دیکھنے کے لائق تھی! صدر مملکت بھی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخاب پر آنکھ لگائے بیٹھے تھے! بابر اعوان اور عاصمہ جہانگیر کے درمیان ’اشتراکات‘ نہ ہونے کے برابر ہیں مگر گفتگو کے نتائج حیران کن حد تک یک رُو اور یک سُو ہیں! محترمہ عاصمہ جہانگیر، جناب احمد اویس اور جناب اکرام چودھری کے درمیان برپا معرکہ طے ہو چکا۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق محترمہ عاصمہ جہانگیر کامیاب قرار دی جا چکی ہیں۔ بلاشبہ مقابلہ بہت سخت رہا! اب یہ عیاں ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ عدلیہ کے وقار میں، اضافے کا ایجنڈا جیتا ہے، یا، عدلیہ کے وقار میں ’بے ہنگم اضافے کی کاٹ چھانٹ‘ کے مدعیوں کی بات بنی ہے!
جہاں تک ’وزارت عظمی‘ کا سوال ہے، تو ہم اس کے ’متعلق‘ صرف اتنا کہیں گے کہ چودھری پرویزالہی قومی اسمبلی میں ’متبادل‘ کے طور پر موجود ہیں! اور ’برادری سیاست گری‘ میں ان کا کوئی حریف تو کیا؟ ثانی بھی موجود نہیں! اللہ اللہ! وہ پارٹی جسے تمام برج الٹ دینے کی سعادت حاصل تھی! اب ایک ایک بُرج تلے رک کر ہاتھ دکھاتی پھر رہی ہے!
پیر سائیں نے چاہا اور دعا کے لئے ہاتھ بلند کر دیئے تو اللہ سب کچھ ٹھیک کر دے گا! ضرورت تو اس بات کی ہے، سب مل کر ’پیر سائیں‘ کو جگائیں تاکہ پاکستان کے ’بھولے بادشاہ‘ دُعا کی ضرورت پر ’اتفاق رائے‘ پیدا کرکے ہاتھ بلند کریں اور ہم سب آمین! کہہ کر اُن تمام مصیبتوں سے چھٹکارا پا لیں جنہوں نے ہمیں تاڑ رکھا ہے!
بھولے بادشاہ! دعا کر، دعا!
پاکستان کے ’بھولے بادشاہ‘ اور ہمارے ’پیر سائیں‘ اچانک یوں ہمارے سر پر آن کھڑے ہوئے کہ ہم جیسے مرید باصفا بھی ان کے قدم لینے کی سعادت سے محروم رہ گئے! یہ ستم شاید یوں برپا ہوا کہ ہم ’دوری‘ میں تین پانیوں میں تین بار اُبالے کھائی بھنگ کی پتیاں اور چھلے ہوئے بادام کچھ ایسی تن دہی سے ’یک جان‘ کرنے میں محو تھے کہ ہمیں ’خبر‘ ہی نہ ہو پائی کہ ڈیرا تو کب کا آباد ہو چکا ہے! حتیٰ کہ ہمارے دونوں ہاتھوں کے سہارے گھومتے اور ’کار یک جائی‘ فرماتے ڈنڈے کے ساتھ آراستہ گھونگھرﺅں کی چھن چھن میں سے ایک دل نشین آواز کا چہرہ طلوع ہوا: دنیا چاند پر پہنچ گئی اور تم ابھی تک یہاں بیٹھے بھنگ گھوٹ رہے ہو! ہم نے شہد سے بھی زیادہ ’آشنا مٹھاس بھرے لہجے کے خدوخال پہچانتے ہی ہاتھ باندھ کر عرض کی، ’پیر سائیں! بس یہ ’دَوری‘ حلق سے اتارتے ہی میں ادھر نکلنے ہی والا تھا!
’لوگ چاند پر پہنچ گئے!‘ یہ ’خبر‘ پیر سائیں کی زبانی سننے کے بعد ہمیں زندگی میں پہلی بار یقین آیا کہ یہ ’گپ‘ یا ’خواہش‘ نہیں، یہ تو ایک ’حقیقت‘ ہے اور واقعی ’خبر‘ کے درجے پر فائز ہو چکی ہے! ہم تو اسے گزشتہ شب تک کسی ’بھنگڑ خانے‘ کے ’افواہ ساز کارخانے‘ کی طرف سے چھوڑی گئی، ایک کامیاب ’ہوائی‘ سے زیادہ کوئی اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں تھے! اب انہوں نے فرمایا ہے کہ پاکستانی قوم مردہ پرست ہے تو ہم سوچ رہے ہیں: سچ کہا! حق! بابا حق! اور پھر انہوں نے ارشاد کیا کہ یہ قوم کسی کے جانے کے بعد اس کے اچھے کاموں کی تعریف کرتی ہے تو ہمارے اندر سے بے ساختہ آواز آئی، ’آوے ای اوے!‘ اور ہم نے دیکھا کہ ہمارے گرد بیٹھے پارٹی کارکنوں نے چور آنکھوں سے دروازے کی طرف دیکھنا شروع کر دیا کہ ادھر وہ آئیں اور ادھر وہ خود کسی طرف کھسک لیں! لیکن جب انہوں نے یہ فرمایا کہ پاکستان 8 قدم آگے بڑھ کر 42ویں نمبر سے 36ویں نمبر پر نہیں آیا بلکہ کرپشن کم ہونے کے بعد 36ویں نمبر سے اتر کر 42ویں نمبر پر آ گیا ہے تو ہم دست بستہ کھڑے ہو گئے، ’دَوری‘ اٹھائی حلق میں لنڈھائی اور چاند کی طرف اڑنے لگے! خوش فہمی کی بھی حد ہوتی ہے! ہم نے پاﺅں پٹخ کر اُڑان بھری ہی تھی کہ آواز آئی: ’جس چیز کی حد ہوتی ہے! اس کی انتہا بھی ہوتی ہے!‘، پیر سائیں کے الفاظ نے ہمارے پاﺅں پکڑ لئے ’چاند گاڑی‘ کا سفر (م¶خر) ہو گیا! ہمارے ایک پیٹی بھائی نے پیر سائیں کے سامنے درخواست گزاری کہ اسے، اس کی سیکرٹری سے شادی کی اجازت مرحمت فرما دی جائے! تو ’پیر سائیں‘ نے اس سے پوچھا، ’سیکرٹری سے ہی کیوں؟‘ تو ہمارے ’مرید باصفا‘ پیر بھائی نے انہیں بتایا، ’وہ ایک ’تابعدار خاتون‘ ہے اور مجھے ایک ’تابعدار بیوی‘ کی تلاش تھی!‘ پیر سائیں مسکرائے اور فرمایا، ’خوش فہمی کی حد بھی نہیں ہوتی اور ’خوش فہمی کی انتہا‘ بھی نہیں ہوتی!‘
پیر سائیں چلے گئے تو ہمارا کیا بنے گا؟ یہ تھا، وہ سوال جس نے ہمیں زمین پر رہ جانے کی بنا پر اپنی گرفت میں لے لیا! لوگ ان کے جانے کے بعد ان کی تعریف کرتے کرتے زبانیں بھی سکھا لیں تو کیا ہماری ’مفلسی میں گیلا آٹا‘ بھی خشک ہو جائے گا؟ قیمتوں میں 120 فی صد اضافہ واپس ہو جائے گا؟ ’سٹیل ملز‘ اور ’واپڈا‘ کی نج کاری رک جائے گی؟ پاکستان ریلوے کی اراضی پر ناجائز قبضوں کا سلسلہ تھم جائے گا؟ یا صرف ’پیر سائیں آیا مٹھے چول لیایا‘ کے نعرے سر ہوں گے! درگاہ پر چراغاں ہو گا! اور تتلیاں دھمالیں ڈال کر خوشبو کے رنگ بکھیریں گی؟
پیر سائیں کے متنازع بیانات اہل پاکستان کے لئے کسی تکلیف کا باعث ہوں تو ہوں! ہم ’مریدانِ باصفا کا لشکر جرار، ان کے بیانات کے لئے ’ارشادات‘ کا لفظ استعمال میں لاتا ہے اور وہ بھی ہمیں آج تک اُسی طرح استعمال میں لا رہے ہیں، جس کا حق انہیں ’پیدائشی‘ طور پر حاصل ہے! ہمارا کام صرف ’آمنا و صدقنا‘ کہنا ہے! ہمیں ان کے چہرے کی طرف بھرپور نگاہ ڈالنے کا بھی اذن نہیں! ان کی بات ان کے ’منہ سے‘ ہمارے کان کی جگہ ہمارے دل میں اترنے کے لئے سفر آغاز کرتی ہے، پیروں اور فقیروں کے درمیان یہ ایک ازلی معاہدہ ہے، پیر کے حصے میں ’اذن‘ آیا ہے اور فقیر کے حصے میں ’تعمیل‘ آئی ہے! جاں دے آنے کی! رُوح بیچ آنے کی! پیر ’حدود‘ نہیں پھلانگ پاتا اور فقیر تعمیل میں ہر حد الانگھ جاتا ہے! یہی رسم فقیری ہے! دیکھیں اب ہمارے لئے کیا حکم آتا ہے؟
محترمہ عاصمہ جہانگیر کی حمایت میں بلند پرچموں میں پیپلز لائرز فورم کی بلندی دیکھنے کے لائق تھی! صدر مملکت بھی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخاب پر آنکھ لگائے بیٹھے تھے! بابر اعوان اور عاصمہ جہانگیر کے درمیان ’اشتراکات‘ نہ ہونے کے برابر ہیں مگر گفتگو کے نتائج حیران کن حد تک یک رُو اور یک سُو ہیں! محترمہ عاصمہ جہانگیر، جناب احمد اویس اور جناب اکرام چودھری کے درمیان برپا معرکہ طے ہو چکا۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق محترمہ عاصمہ جہانگیر کامیاب قرار دی جا چکی ہیں۔ بلاشبہ مقابلہ بہت سخت رہا! اب یہ عیاں ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ عدلیہ کے وقار میں، اضافے کا ایجنڈا جیتا ہے، یا، عدلیہ کے وقار میں ’بے ہنگم اضافے کی کاٹ چھانٹ‘ کے مدعیوں کی بات بنی ہے!
جہاں تک ’وزارت عظمی‘ کا سوال ہے، تو ہم اس کے ’متعلق‘ صرف اتنا کہیں گے کہ چودھری پرویزالہی قومی اسمبلی میں ’متبادل‘ کے طور پر موجود ہیں! اور ’برادری سیاست گری‘ میں ان کا کوئی حریف تو کیا؟ ثانی بھی موجود نہیں! اللہ اللہ! وہ پارٹی جسے تمام برج الٹ دینے کی سعادت حاصل تھی! اب ایک ایک بُرج تلے رک کر ہاتھ دکھاتی پھر رہی ہے!
پیر سائیں نے چاہا اور دعا کے لئے ہاتھ بلند کر دیئے تو اللہ سب کچھ ٹھیک کر دے گا! ضرورت تو اس بات کی ہے، سب مل کر ’پیر سائیں‘ کو جگائیں تاکہ پاکستان کے ’بھولے بادشاہ‘ دُعا کی ضرورت پر ’اتفاق رائے‘ پیدا کرکے ہاتھ بلند کریں اور ہم سب آمین! کہہ کر اُن تمام مصیبتوں سے چھٹکارا پا لیں جنہوں نے ہمیں تاڑ رکھا ہے!