آخر کار مرشد کی پرامن فائنل کال کا پرامن فائنل سنسکار ہو گیا اور نشانی کے طور پر وہ جلا ہوا کنٹینر چھوڑ گیا۔ جناح ایونیو میں اس کنٹینر کو لوگوں نے ’’لاشہء انقلاب‘‘ کا نام دیا ہے۔ پرامن فائنل کال کا آغاز جینا ہو گا مرنا ہو گا دھرنا ہو گا دھرنا ہو گا کے نعروں سے ہوا اور آخر میں یہ نعرے ڈرنا ہو گا، ڈرنا ہو گا میں بدل گئے۔
ڈرنا ہو گا، بھاگنا ہو گا کی صدائے رستاخیز بلند ہوتے ہی بس بھاگے۔ کوئی صوابی کی طرف بھاگا، کوئی پبّی کی طرف، کسی نے پشاور کا، کسی نے باڑے کا تو کسی نے ڈی آئی خاں کا رخ کیا۔ کوئی کوہاٹ کو بھاگا کوئی مردان، کوئی کرک تو کوئی لکی مروت، کوئی چارسدّے کو گیا۔ کوئی وزیرستان جا کر رکا۔ اور کچھ تو ایسے تھے کہ بھاگتے بھاگتے پاک افغان سرحد ہی عبور کر گئے اور سیدھا ملا مصیبت اللہ کے گوشہء عافیت میں پناہ لی۔ یہ لوگ پاک افغان سرحد نہیں کہتے، ڈیورنڈ لائن کا نام دیتے ہیں۔
پرامن فائنل کال سے بہت سی چیزیں آشکار ہوئیں، کچھ تو پھر سے آشکار ہوئیں۔ مثلاً اسی بات کو لے لیجئے کہ لوگ کبھی ایک بات پر متفق نہیں ہوتے، ہمیشہ بٹے رہتے ہیں حتیٰ کہ چشم دید گواہوں کے بیان بھی آپس میں نہیں ملتے۔ ایک مثال اس سوال میں تھی کہ پہلے کون بھاگا۔ آدھے گواہ بتا رہے تھے کہ پہلے گنڈا پور بھاگے ، باقی آدھے کہتے تھے کہ نہیں، پہلے مرشدانی جی بھاگیں، گنڈاپور ان کے پیچھے، ان کے بعد بھاگے۔ بہرحال، اس بات پر دونوں فریقوں کا اتفاق تھا کہ بعد میں دونوں اکٹھے بھاگے، ایک ہی گاڑی میں بھاگے اور ایسا دم لئے بغیر بھاگے کہ مانسہرہ جا کر ہی رکے۔
_______
اطلاع ہے کہ گنڈاپور کے جانے کے بعد ان کے کنٹینر کو آگ لگ گئی اور اس آگ سے جہاں دیگر چیزیں جل کر خاک ہوئیں، وہیں گنڈاپور کی اسلامی شہد والی بلیک لیبل بوتلوں کے کریٹ بھی جل کر راکھ ہو گئے۔ جلے ہوئے ’’گلوکوز‘‘ کی خمیری مہک اِدھر اْدھر پھیل گئی ، انقلاب رخصت ہوا، اپنی نشانی جلے ہوئے کنٹینر کی صورت میں چھوڑ گیا:
یہ نشانی رہ گئی ہے اب بجائے ’’انقلاب‘‘۔
کنٹینر کو آگ کیسے لگ گئی، اس بارے میں بھی اختلاف ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ آگ خود بھاگنے والوں نے لگائی کیونکہ اس میں انقلاب کے بارے میں کچھ گراں قدر معلومات تھیں جو فسطائی حکومت کے ہتھے لگ سکتی تھیں اور حقیقی آزادی کی جدوجہد کو نقصان ہو سکتا تھا۔ بعض لوگ اس سے انکاری ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کنٹینر کو آگ ملکہ روحونیات کے موکلوں اور بیروں نے لگائی۔ موکل ہوں یا بیر، دونوں آتشی مخلوق ہیں، ہو سکتا ہے باہم لڑ پڑے ہوں اور اس باہمی ’’رگڑاہٹ‘‘ سے پھوٹنے والی چنگاریوں سے آگ بھڑک اٹھی ہو۔ خیال تھا کہ ملکہ روحونیات مانسہرے میں پریس کانفرنس کے دوران اس روحونیاتی وقوعے پر کچھ کہیں گی لیکن کچھ نہیں کہا۔
_______
پرامن فائنل کال کے پرامن مظاہرین نے ربڑ کی گولیاں چلا کر 130 پولیس اہلکار زخمی کئے۔ دو کی جان لی، اسلام آباد کے علاقے میں پرامن لوٹ مار کی، دکانوں اور میٹرو اسٹیشنوں سے بہت سا مال اسباب لے اڑے۔ تین ٹی وی چینلز کی عمارتوں پر پرامن دھاوا بولا سامان توڑ پھوڑ ڈالا، کچھ صحافیوں کے سر پرامن طریقے سے پھوڑے اور پھر پرامن انداز میں کیمرے وغیرہ چوری کر کے پرامن طریقے سے راہ فرار اختیار فرمائی۔ پرامن طریقے سے رینجرز پر گاڑی چڑھائی جس سے چار سپاہی شہید ہوئے۔ اور ہاں پنجاب داخل ہونے سے پہلے موٹروے کے دائیں بائیں آگ لگا کر سب جنگل جھاڑی صاف کر ڈالی۔
جنگل جھاڑی فسطائیت کے نشانات ہیں۔ ان سے حقیقی آزادی والوں کو جنم جنم کا بیر ہے۔ مختلف رپورٹیں بتاتی ہیں کہ کے پی میں اپنے اقتدارکے 12 ، 14 برسوں میں حقیقی آزادی والے اب تک 40 فیصد جنگلات کا صفایا کر چکے ہیں جس سے فسطائیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
_______
بے بصیرت تجزیہ کار لکھ اور بول رہے ہیں کہ فائنل کال ناکام ہو گئی۔ حالانکہ اس کے مقاصد پوری طرح حاصل کر لئے گئے ہیں۔
مقاصد میں سرفہرست یعنی ’’پرائم‘‘ مقصد کیا تھا۔ قائد حقیقی آزادی، یعنی مرشد پریشان تھے کہ ان کے خلاف کل دو مقدمے باقی رہ گئے تھے، ان میں بھی ضمانت ہو گئی تو کیا ہو گا۔ ان کا ارادہ، انہی کے الفاظ میں، مزید سو سال جیل میں رہنے کا تھا لیکن متوقع ضمانتوں سے یہ عظیم آدرش خطرے میں تھا۔ چنانچہ انہوں نے فائنل کال کی وساطت سے خود پر قتل، اقدام قتل ، سازش اور دہشت گردی کے مزید چار مقدمات کا اندراج یقینی بنایا۔ یوں ان کے سو سال جیل میں رہنے کے امکانات کو تقویت مل گئی۔
یعنی بنیادی مقصد کامیابی سے حاصل کر لیا گیا۔ ہاں، اعتراض اگر ہو سکتا ہے کہ اتنے سے کام کیلئے 25 ،30 ہزار لوگوں کو ، کے پی صوبے کے ہر شہر سے اتنی دور بلانے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ کام وہ اپنی خفیہ مذاکراتی ٹیم کی وساطت سے، حاکمان وقت کو درخواست کر کے بھی کر سکتے تھے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی فراخ دل آدمی ہیں، ان کی درخواست کبھی نہ ٹالتے، چار پانچ نہ سہی، ایک دو مقدمے تو بنا ہی ڈالتے۔
_______
مرشد کا حکم تھا کہ کے پی کے سے برآمد ہونے والے جلوس انقلاب میں شرکا کی تعداد ایک لاکھ ہونی چاہیے۔ قریب قریب یہ ہدف حاصل کر لیا گیا، محض 75 ہزار کی کمی رہ گئی۔ 25 ہزار کا جلوس اسلام آباد پہنچنے کے چند گھنٹوں بعد پہلے 20 ہزار ہوا، یعنی 5 ہزار واپس چلے گئے لیکن اگلی شام اچانک ان کی تعداد کم ہو کر 5 ہزار رہ گئی۔ یعنی 15 ہزار رجعت قہقری کر گئے۔ تھوڑی دیر بعد یہ محض دو ہزار رہ گئے۔ جب دو ہزار رہ گئے، تب پولیس / رینجرز نے ایکشن کیا اور پھر آناً فاناً میدان مطلع کی طرح صاف تھا، اور آگ بجھی ہوئی ادھر، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر کا منظر تھا۔ جب 10 ہزار تھے ، تب ایکشن ہوتا تو بھگدڑ مچتی، کئی لوگ جان سے جاتے۔ رینجرز اور پولیس حکام کنجوس نکلے۔ مرشد کی فرمائش تھی کہ مجھے کچھ لاشیں چاہئیں ، کنجوس حکام نے یہ فرمائش پوری کرنے کی گنجائش ہی نہ چھوڑی۔
_______
انقلاب کا جلوس کے پی سے پنجاب داخل ہوا تو اس میں 35 ارکان قومی اسمبلی اور اس سے دگنے ارکان صوبائی اسمبلی تھے یعنی سو سے زیادہ ارکان اسمبلی ہم رکاب انقلاب تھے۔ لیکن اسلام آباد پہنچتے پہنچتے ان میں سے ایک بھی باقی نہ رہا، سب غائب غلّہ ہو گئے۔
یہ بھی انقلاب کی ایک ادا سمجھئے۔ بہرحال انقلاب کا جلوس تو نکل ہی گیا۔ براہ کرم جلوس کو جلوس ہی پڑھیئے، فالودہ مت پڑھیئے۔ ویسے فالودے کا ایک متبادل ’’پلیتھن‘‘ بھی ہے۔