بلیو ایریا میں تحریک انصاف کے رہنماؤں بشری بی بی اور علی امین گنڈاپور کی قیادت میں آنے والے جلوس کے شرکاء کو اسلام آباد پولیس، پنجاب پولیس، رینحرز اور ایف سی نے گرینڈ آپریشن کرکے منتشر کردیا۔ بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور اور سینئر رہنماؤں کیلئے تیار کیا گیا کنٹینر بھی جل گیا۔ بڑی تعداد میں کارکن بھی حراست میں لے لئے گئے۔ بلیو ایریا کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا۔ آپریشن کے دوران پولیس نے آنسو گیس، ہوائی فائرنگ کی جس سے مظاہرے کے شرکاء بلیو ایریا سے مختلف سمتوں کی جانب دوڑتے رہے۔ پولیس ان کارکنوں کو گرفتار کرنے کیلئے ان کا پیچھا کرتی رہی۔ بشری بی بی اور علی امین گنڈا پور گاڑی میں بلیو ایریا سے اس دوران روانہ ہو گئے۔ پولیس نے ان کی گاڑی کا بھی تعاقب کیا۔ پولیس، رینجرز اور ایف سی کی ٹیموں نے ایف سیون، ایف ایٹ، جی سیون کی گلیوں، فیصل ایونیو، سرینگر ہائی وے، اسلام آباد ہائی وے پر جانے والے کارکنوں کا پیچھا کیا۔ بتایا گیا ہے کہ 500 سے زیادہ کارکن حراست میں لے لئے گئے۔ آپریشن سے قبل صبح سے رات تک پولیس اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے درمیان آنسو گیس کے شیل چلتے رہے جس سے سانس لینا بھی دشوار تھا۔ قبل ازیں تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران انتشار سے نمٹنے کیلئے وفاقی دارالحکومت میں فوج طلب کرلی گئی تھی۔ جس سے واضح کیا گیا تھاکہ قانون توڑنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔پاک فوج کو کرفیو کے نفاذ اور شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے اختیارات بھی دیئے گئے تھے جن کے استعمال کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ پولیس، رینجرز اور ایف سی نے ڈی چوک کو پی ٹی آئی کے مظاہرین سے خالی کرا لیا جس کے بعد ڈی چوک مکمل طور پر رینجرز کے کنٹرول میں ہے۔دریں اثنا تحریک انصاف نے احتجاج منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ہدایت کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں پرامن مظاہرین کیخلاف بربریت کامظاہرہ کیاگیا، انہوں نے دعویٰ کیاکہ پی ٹی آئی کے آٹھ کارکن شہید ہوئے ہیں جن کے کوائف آچکے ہیں، کارکنوں کو سیدھی گولیاں ماری گئیں،کارکنان کے قتل اور آپریشن کی مذمت کرتیہیں۔
تحریک انصاف کی احتجاج کی کال کے بعد عوام کی زندگیاں اجیرن بن کے رہ گئی تھیں۔ اسلام آباد کو سیل کر دیا گیا تھا موٹر ویز شاہراہیں بس ویگن اڈے بھی بند کرنے کے احکامات تھے۔عدالتیں کھلی تھیں مگر وکلاخصوصی طور پر سائلین اور پٹیشنردور دراز علاقوں سے کیسے عدالتوں میں آ سکتے تھے۔ حکومت کی طرف سے جو کارروائی گزشتہ روز کی گئی وہ پہلے دن کر لی جاتی تو تین چار روز صورتحال دگرگوں نہ رہتی۔بہت سے لوگ اپنی ڈیوٹی پر نہ پہنچ سکے۔کتنے مریض ہسپتال جانے سے قاصر رہے۔ کئی شادیاں التوا کا شکار ہو گئیں۔معیشت جو پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے اس کو مزید زک پہنچی۔ یہ صرف پی ٹی آئی کے احتجاج ہی پر موقوف نہیں ہے، ایسے احتجاج مظاہرے دھرنے جب بھی ہوتے ہیں ایسا ہی ہوتا ہے۔جن میں دونوں طرف کے لوگ مارے جاتے اور زخمی ہوتے رہے ہیں۔حتمی طور پر حکومتیں سیاسی کارکنوں اور لیڈروں کو رہا کر دیتی ہیں جو لوگ مارے جاتے ہیں ان کا خون رزق خاک ہو جاتا ہے۔ پْرامن احتجاج کا ہر کسی کو حق ہے۔ پْرامن کہنے سے احتجاج یا مظاہرے پْرامن نہیں ہو جاتے۔ اس احتجاج کو بھی پْرامن کہا گیا جس میں پولیس اور رینجرز کے چھ اہلکار شہید ہوئے۔تحریک انصاف کے دعوے کے مطابق اس کے آٹھ ورکر جاں بحق ہوئے۔ دونوں طرف سے سو سو سے زیادہ کے زخمی ہونے کی بھی بات کی جا رہی ہے۔ ایسے میں کہاں پْرامن احتجاج رہ جاتا ہے۔ اگر احتجاج کے نام پر خونریزی ہونی ہے تو کیا ایسے احتجاجوں پر قانون سازی کے ذریعے پابندی نہیں لگنی چاہیئے؟
رینجر کے چار اہلکار شہید ہوئے ان کی نماز جنازہ میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وزیراعظم شہباز شریف نے شرکت کی۔ وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے کہا گیا کہ انتشاری ٹولہ انقلاب نہیں خون ریزی چاہتا ہے یہ پرامن احتجاج نہیں شدت پسندی ہے۔وزیر داخلہ محسن نقوی کی طرف سے ڈی چوک خالی ہونے کے بعد وہاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے یقین ظاہر کیا گیا کہ آج حالات مکمل طور پر معمول پر آجائیں گے۔ پی ٹی آئی والوں نے اور کتنی بار یہ کرنا ہے، اب بس کریں۔
پارلیمان موجود ہے تحریک انصاف اس کا حصہ ہے۔خیبر پختونخواہ میں اس کی حکومت ہے۔پارلیمنٹ میں اپنی بات رکھی جائے۔ تحریک انصاف کی جوشیلی قیادت اپنے لیڈر کی رہائی چاہتی ہے۔ ان کی رہائی تک 24 نومبر کو شروع ہونے والے احتجاج کو جاری رکھنے کے اعلانات ہوتے رہے۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ آپ مظاہروں کے ذریعے کسی کو جیل سے نکال کر لے جائیں۔ عمران خان نے جیل سے بیٹھ کر احتجاج کی کال دی تھی۔ان کے تین مطالبات تھے : 26ویں آئینی ترمیم ختم کی جائے۔ تحریک انصاف کے مقید کارکنوں کو رہا کیا جائے۔ پی ٹی آئی کا مینڈیٹ واپس کیا جائے۔ ان کے بقول آٹھ فروری 2024ء کے الیکشن میں تحریک انصاف نے دو تہائی اکثریت حاصل کی تھی جسے اقلیت میں بدل دیا گیا۔ ایک طرف عمران خان مطالبات سامنے رکھ کر احتجاج کی کال دے رہے ہیں دوسری طرف وہ ان مطالبات پر مذاکرات بھی کرنا چاہتے ہیں۔ان کی شرط ہے کہ وہ مذاکرات حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کریں گے۔ایک طرف ان کا مطالبہ ہے کہ پاک فوج سیاسی معاملات سے الگ رہے دوسری طرف خود اسے سیاست میں بھی گھسیٹ رہے ہیں۔ اب تحریک انصاف نے احتجاج کے خاتمے کا اعلان بعد از خرابء بسیار کیا ہے۔ جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔بہرحال دیرآید درست آید۔سیاست کو آگ کا الاؤ نہ بننے دیں۔
سیاسی اختلاف رائے کے اظہار اور مطالبات منوانے کے لیئے پی ٹی آئی نے جو راستہ اختیار کیا وہ پورے سسٹم کی بساط لپیٹنے کا موقع فراہم کرنے والا راستہ ہے۔ دوطرفہ ڈائیلاگ ہی مسائل کا حل ہے۔ ریاست سے ٹکرانے کا انجام متعلقہ پارٹی کے لیئے ہی نہیں ملک کے لیئے بھی مضرت رساں ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی کو اب بھی سڑکوں پر آنے کی بجائے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اپنے مطالبات پیش کرنے چاہئیں۔