کشمیر اور فلسطین کے مسائل کا موازنہ!

وکلاءکشمیر محاذ کے چیئرمین عابد بھٹی سے گذشتہ ہفتے اس موضوع پر مکالمے کا موقع ملا۔ عابد بھٹی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایک جملے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں مسائل مسلمانوں سے متعلق ہیں۔ اسی لئے یہ حل نہیں ہوپاتے۔ انہوں نے کہا کہ ایک فرق تو واضح ہے کہ کشمیریوں کو عالمی سطح پر وہ حمایت میسر نہیں ، جو غزہ کی جنگ کے دوران فلسطینیوں کے لئے دیکھنے میں آئی ہے۔خود اسرائیل کے سب سے بڑے پشت پناہ امریکہ کے اندر احتجاجی مظاہرے ہوئے ، دنیا بھر میں روزانہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ جلسے جلوس منعقد کررہے ہیں ، اسلامی کانفرنس نے بھی اپنی آنکھوں پر بندھی ہوئی کالی پٹی اتاری، اپنے کانوں میں ٹھنسی ہوئی بوسیدہ روئی نکالی ، زبانوں پر لگا ہوا زنگ آلود تالہ کھولا، غزہ کے مظلوموں کے حق میں اسلامی کانفرنس کا غیرمعمولی سربراہی اجلاس سعودی عرب میں طلب کیا گیا ، 
اگرچہ غزہ کی حالیہ جنگ حماس نےشروع کی، جس میں بارہ ہزار شہادتیں ہوچکی ہیں۔ ان میں چار ہزار معصوم بچوں کی لاشیں بھی شامل ہیں۔ ہسپتال اور انسانی آبادیاں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ملبے کے ڈھیرمین تبدیل ہوگئی ہیں۔ لیکن دنیا بھر کے اربوں انسانوں میں سے کسی ایک نے بھی حماس کو مطعون نہیں کیا ، بلکہ کرہ ارض کی فضا اسرائیل مردہ باد کے نعروں سے گونج رہی ہیں۔ 
عابد بھٹی نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 1948ءمیں کشمیر پر حملے کے لئے پاکستان کو ہی مطعون کیا گیا کہ اس نے قبائلی لشکر اور اپنی فوج کو سری نگر کی طرف روانہ کردیا ہے۔ جس کے دفاع کے لئے بھارت نے جوابی حملہ کیا۔ 
اسی طرح 1965ءمیں پاکستان کو ہی یہ طعنہ سننا پڑا کہ اس نے آپریشن جبرا لٹر کرکے بھارت کو جنگ کی دلدل میں گھسیٹا۔ عابد بھٹی نے کہا کہ یہ نکتہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ 1984ءمیں بھارت نے چوروں کی طرح سیاچن پر جارحانہ قبضہ کیا ، اور دنیا کا بلند ترین محاذ ِ جنگ کھول دیا۔ تو اقوام ِ عالم نے بھارت کو برا بھلا نہیں کہا۔ لیکن 1999ءمیں پاکستان نے کارگل آپریشن کیا ، اور سیاچن کی واحد سپلائی لائن کو کاٹ کر رکھ دیا تو اس موقع پر ایک دنیا نے تو ہمارے گلے پڑنا ہی تھا، مگر خود ہم نے فوج کے خلاف پروپیگنڈا محاذ کھول دیا۔ اور عالمی اخبارات میں ’روگ آرمی ‘ کے عنوان سے اشتہارات چھپے۔ 5اگست 2019ءکو بھارت نے اپنے ہی آئین کو روندتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی۔ کشمیر ی لیڈروں کو سلاخوں کے پیچھے بند کردیا گیا۔ کشمیریوں کا پوری دنیا سے رابطہ منقطع کرنے کے لئے ٹیلی فون اور وائی فائی انٹرنیٹ منقطع کردیا گیا اور گلی گلی خاردار تاریں بچھادی گئیں ،بھارتی فوج کو حکم ملا کہ کوئی بھی کشمیری گھر سے نکلے تو اسے فوری گولی ماردو۔ اس بدمعاش کرفیو کی خلاف ورزی پر بوڑھوں اور بچوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ وادی کشمیر دنیا کے سب سے بڑے جیل خانے میں تبدیل کردی گئی۔تو کیا مجال کہ دنیا بھر میں کسی کے کانوں پر جوں تک بھی رینگی ہو۔ پاکستان یکہ و تنہا احتجاج کرتا رہ گیا۔ لیکن اقوام متحدہ سے لے کر اسلامی کانفرنس اور بنیادی حقوق کے عالمی اداروں تک سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ 
عابد بھٹی نے مزید کہا کہ کشمیر اور فلسطین میں ایک واضح فرق اور بھی ہے کہ حماس کو بعض ممالک کی طرف سے مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ جس کو جنگی تربیت دی جاتی ہے ، جدید ترین میزائلوں سے مسلح کیا جاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف ، کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھانے والی تنظیموں کے اوپر جبر کے گہرے سائے اور کڑے پہرے ہیں۔ ا نہیں اقوام متحدہ کی طرف سے دہشت گرد قرار دیا جاچکا ہے۔ کشمیریوں کے حق میں ذرا سی بھی حرکت سامنے آئے ، تو پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کرنے کی دھمکیاں مل جاتی ہیں۔ اس معاملے میں بھی ہمارا اپنا کردار قابل ستائش نہیں ، جنرل مشرف اور اس کی کابینہ نے دن کی روشنی میں اس فیصلے کا اعلان کیا کہ کشمیر کے لئے جہاد دہشت گردی کی ہی حیثیت رکھتا ہے۔ 
عابد بھٹی ایڈووکیٹ کے لہجے میں دکھ بھرے آنسو جھلک رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اسلامو فوبیا نے پورے عالمِ اسلام کو مجرم ٹھہرارکھا ہے۔ اس ماحول میں کشمیر اور فلسطین کے حق میں بات کرنے کی جرات کون کرسکتا ہے۔ 
ویسے عالم ِ اسلام کی بے حسی پر بھی رونا آتا ہے ، کہ ہماری آنکھوں کے سامنے فلسطینیوں اور کشمیریوں پر جبر کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ ہمارے پاس ان کے مسائل حل کرنے کی طاقت نہیں ہے ، فلسطین کا مسئلہ تقریباًڈیڑھ صدی پرانا ہے۔ کشمیریوں کو بھی ظلم و ستم سہتے پون صدی گذر گئی ، ا س دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دونوں مسائل کے حل کے لئے متعدد قر اردادیں بھی منظور کیں، جو کہ محض کاغذی ثابت ہوئیں۔ کشمیر کے لئے یو این او کی سلامتی کونسل کی ایک قرارداد تو بڑی واضح ہے کہ کشمیری عوام اپنی قسمت کا فیصلہ یو این او کے تحت منعقدہ ایک آزادانہ،منصفانہ استصوابِ رائے یعنی ریفرنڈم میں کریں گے۔ لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی نے آج تک استصواب کی نوبت ہی نہیں آنے دی۔ فلسطین کے لئے یواین سلامتی کونسل کی ایک قرارداد بڑی غیر مبہم ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ فلسطین کی سرحدیں 1967ءکی جنگ سے قبل کے مطابق ہوں گی۔ لیکن ایک وسیع و عریض فلسطین غزہ اور مغربی کنارے کی دو یونین کونسلوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ عابد بھٹی نے اپنے مکالمے کے اختتام پر کہا کہ عالمِ اسلام کو بیدار ہونا ہوگا۔ اور اس قرآنی حکم پر عمل کرنا ہوگا کہ اپنے گھوڑے تیار رکھو۔ 

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن

مولانا قاضی شمس الدین

ڈاکٹر ضیاء الحق قمرآپ 1916ء مطابق 1334ھ کو کوٹ نجیب اللہ، ہری پور ہزارہ میں مولانا فیروز الدین کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق ایک ...