بس یادیں رہ جاتی ہیں
ہر چیز دستیاب ہے دنیا جہاں کی
لیکن تیری کمی کا ازالہ نہ ہو سکا
26نومبر کو ہمارے مربی ،محتشم القدر والد محمد اقبال کو جہانِ فانی سے کوچ ہوئے 2 برس ہوگئے ہیں ۔ آج بھی وہ لمحات یاد ہیں جب ہم نے انہیں خاک کی چادر اڑھائی ۔ ہم اب بھی محسوس کر سکتا ہوں اس شدتِ غم کو.... ا±ن سے محبت ہی ایسی تھی کہ ا±ن سے دوری کا تصور ہی جان نکال دیتا تھا پر انسان سب کے بغیر جینا سیکھ ہی لیتا ہے ۔ زندگی کے ہر قدم پراپنے والد محترم کی کمی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ کوئی بھی کامیابی حاصل کرتے ہیں تو والدین کی بہت یاد آتی ہے، کوئی مشکل درپیش ہو تو انکی کمی کا احساس درد دل بن جاتا ہے ۔ ان کی یادیں ہمارے سینے میں دفن ہیں۔ہمارے والد محترم تحریک پاکستان کے اکابرین کی بہت تعظیم کرتے ۔ وہ کہتے تھے کہ تحریک پاکستان میں حصہ لینے والوں نے مسائل ومشکلات کے جو دریا عبور کئے ہم اگر تمام عمر بھی ان کے شکر گزار رہیں تو بھی ان کی قربانیوں کا بدلہ ادا نہیں کیا جاسکتا ۔والد صاحب بچوں کی تعلیم اور ضرورت مندوں کی خدمت کو بہت زیادہ اہمیت دیتے وہ محنتی طلباءاور تابع فرماں بچوں کی بہت عزت وتعظیم کرتے تھے ہمارے ایک دوست فیصل آباد سے دوران تعلیم راولپنڈی منتقل ہوئے تو میرے والد صاحب نے ان کی جانفشانی ‘ لگن اور فرماں برداری کو دیکھ کر پیشن گوئی کی تھی کہ یہ مودب ہے اور ادب اسے بلند مقام عطاءکرے گا ، پھر ایسا ہی ہوا۔ ہم جب اپنے اس فیصل آبادی دوست ملتے ہیں تو والد محترم کی باتوں اور یادوں کی شمع پھر سے روشن ہو جاتی ہے۔ 26 نومبر 2000 آنسوﺅں اور آہوں میں تر وہ دن کتنا اذیت ناک تھا .... اللہ پاک ہمارے ماں باپ اور سب مسلمانوں کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائیں،انہیں حضور کریم کا قرب اور شفاعت نصیب فرمائے آمین
( ظفر اقبال بابر 03335499196راولپنڈی)