عوام اور عوامی مسائل

جب سے تحریک ِ انصاف کی حکومت ختم ہوئی ہے ، سابق وزیر اعظم عمران خان احتجاج کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں، مطالبہ ایک ہی ہے کہ انتخابات کی تاریخ دی جائے۔ خان صاحب یہ چاہتے ہیں کہ آزادی مارچ کے دباﺅ پر سٹیک ہولڈرز انتخابات کا اعلان کر دیں ۔ اسی حکمت ِ عملی کے تحت آزادی مارچ سست روی کے شکار رہا ۔ پرسوں راولپنڈی میں آزدی مارچ کا اختتام مطلوبہ نتائج کے ساتھ ہوا یا نہیں اس پر تبصرے اور تجزیے جاری ہیں ۔ کیا عدم اعتماد کے نتیجے میں ِوجود میں آنے والی نئی حکومت اپنی مدت پوری کر سکے گی؟ عوامی مسائل حل ہو سکیں گے یا کھیل ابھی جاری رہے گا وہ کھیل جس کے تحت کوئی بھی حکومت اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر پاتی اور اگر اللہ اللہ کر کے آصف علی زرداری جن کو ایک بار حکومت ملی اور وہ خوش قسمتی سے مملکت ِ خدادا کے صدر بنے اور اپنی مدت پوری کرائی۔ درمیان میں یوسف گیلانی کی تبدیلی ضرور ہوئی مگر وہ بھی ان کے اپنے اندرونی معاملات تھے آئینی مدت پوری کرنے کی صرف ایک وجہ تھی کہ موصوف اپنے ”کام“ میں پیش بندی کرتے رہے۔ تحریک ِ انصاف سمیت جو بھی حکومت آئی اس نے اپنی مدت پوری نہیں کی اور حکومت کے خاتمہ کے بعد یہ واویلا شروع کر دیا کہ مدت پوری نہیں دی گئی ماضی میںبڑے میاں صاحب تو حکومت کے خاتمہ کے بعد جگہ جگہ یہ کہتے ہوئے سنائی دیئے گئے کے مجھے کیو ں نکالا؟ سوچا
جائے تو بدنصیبی یہی ہے کہ اسے نکال بھی دیا جائے اور نکالے جانے والے کو معلوم بھی نہ ہو کے اسے نکالا کیوں ہے ؟ حکومتوں کو اس طرح رخصت کیئے جانے والے اس کھیل کی اصل وجہ اپنے آئینی حدود اور اختیا رات سے تجاوز ہے یہ تجاوز جب تک ہوتا رہے گا رخصتی کا یہ کھیل بھی اسی طرح جاری رہے گا کسی بھی ادارے کو اس کھیل کا ذمہ دار ٹہرانا آسان اور رخصتی کے اس کھیل سے سبق حاصل کرنا مشکل ہے۔ عمران حکومت کی رخصتی کا عمل اسی سلسلے کا حصہ تھا مگر اس بار طریقہ مختلف تھا جس کی سمجھ عوام کے ساتھ خود عمران خان کو بعد میں آئی اور جب تک سمجھ آئی اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی اور دوسری طرف جن کو اقتدار ملا انہیں بھی خیر سے بعد میں ہی سمجھ آئی کہ عمران خان سے حکومت لے کر ہاتھ کیا گیا اور سیاسی اتحاد کے ساتھ حکومت دے کر کیا کچھ گیا ۔ اگر حقیقت پر مبنی حالات کا تجزیہ کیا جائے تواس کھیل سے تحریک ِانصاف کے گراف اور مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور حکومتی اتحاد کو ووٹ بنک میں کمی کا سامنا ہے۔ دیکھا جائے تو اس وقت تمام جماعتیں اقتدار کی غلام گردشوںمیں سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ق)اور تحریک ِانصاف کی حکومت کے پی کے میں تحریک ِانصاف ،سندھ میں پیپلز پارٹی اور مرکز میں اتحاد ی حکمران ہیں مگر عوامی خدمت کیوں نہیں ہو پا رہی تحریک ِ انصاف نے اپنے دور ِ میں کیا عوامی خدمت کی سوائے وقت کو ذائع کرنے کے اور اب پھر تمام جماعتیں الیکشن کی طرف دیکھ رہی ہیں تحریک ِانصاف کا مطالبہ ہے کہ انتخابات کا ٹائم دے دیا جائے اور اتحادی حکومت کا کہنا ہے کہ انتخابات اپنے وقت پر ہو نگے مگر کیا انہیں خبر ہے کہ عوام جن کے کاندھوں پر سوار ہو کر یہ اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتے ہیں اس ووٹرز کا اصل مسئلہ کیا ہے کیا لوگ صرف وہی ہیں جو آزادی مارچ میں شامل ہیں یا وہ جو شیر آیا شیر آیا کے نعرے لگا رہے ہیں یا بھٹو آج بھی زندہ ہے کا واویلا کرنے والے یا وہ جو اقتدار کے لیئے ہر دیگ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ خیال رہے ووٹ دینے والوں سے ڈبل تعداد ان خاموش افراد کی ہے جو الیکشن ،جلسہ ،جلوس ،مارچ مظاہرے اور ووٹ کے کھیل کو پسند نہیں کرتے اس تعداد کو کوئی غرض نہیں کہ اقتدار کے ایوانوں میں کون داخل ہو کرحکومت بناتا اور اقتدار انجوائے کرتا ہے ان محبان کااب اصل مسئلہ مہنگائی ، پٹرول بجلی گیس ہے انہیں ضرورت ہے کہ آٹا ،چینی ،گھی،دودھ،گوشت تو ایک طرف دالیں ہی قوت خرید کے مطابق ملیں اس وقت چاروں صوبوں اور مرکز میں تمام سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی حیثیت سے اقتدار انجوائے کر رہی ہیں اگر یہ سب جماعتیں مل کر بھی عوام کی اس ضرورت کو پورا نہیں کر سکتی تو پھر الیکشن کے بعد آنے والی حکومت سے کیا توقع کی جا سکتی ہے خیال رہے اگر اس لوگوں نے سڑکو ں پر اپنا کھیل شروع کر دیا تونہ ہی آزادی مارچ والے اور نہ ہی مرکز کا اتحادی اپنا کھیل جاری رکھ سکیں گے ۔اللہ تعالیٰ میرے وطن اور شہریوں کی حفاظت فرمائے۔آمین