پولیس محتسب کا قیام اور اصلاح معاشرہ

معاشرے کی خرابیوں کو دور کرنے کیلئے پولیس کا کردار بہت اہم ہے بد قسمتی سے پولیس سے بہت شکایات ہیں۔پولیس لے اعلیٰ حکام اپنے ماتحتوں کیخلاف کوئی کاروائی نہیں کرتے،حتیٰ کہ جرائم کی رپورٹ درج کروانے کیلئے بھی عوام کوآخر کا رسیشن کورٹ سے رجوع کرنا پڑتا ہے جہاں سے جج صاحب کے حکم پر ابتدائی رپورٹ درج ہونے کے بعد عوام کیلئے دوسرا بڑا مرحلہ صاف اور شفاف تفتیش کا ہوتاہے۔یہ بات اکثر دیکھنے میں آئی ہے کہ مظلوم خاص طور پر غریب یا کمزور شخص کو پولیس سے انصاف نہیں ملتا۔اسکی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عام جرائم تو کیا بڑے بڑے جرائم کی تفتیش ایک انسپکٹر یا سب انسپکٹر کے ہاتھ میں ہوتی ہے،جو مال بنانے کیلئے موقع کا پورا فائدہ اٹھاتا ہے کئی مرتبہ بیگناہ افراد کو تفتیش میں ملوث کر دیتا ہے اور اسے مال پانی نہ ملے تو انہیں چالان کر کے جیل بھیج دیتا ہے اسی
طرح کئی گنہگاروں کو تفتیش میں بیگناہ قرار دیکر چھوڑ دیتاہے،تفتیش کے شعبے میں اسکی بادشاہی ہوتی ہے اور اعلیٰ عدالتوں تک بیگناہوں کو گنہگاروں کے ساتھ ملوث کر دیئے جانے کی وجہ سے بیگناہوں کو الگ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔اس کے علاوہ پولیس ریمانڈ لینے کے بعد ملزم کو پولیس کے رحم و کرم پر ہونا پڑتاہے، پولیس جھوٹی اور جعلی بر آمدگی ڈال کرملزم کر پھنسا دیتی ہے غرضیکہ پولیس کی بد عنوانی کی وجہ سے انصاف کا خون ہو جاتا ہے،اس مسئلے کا حل میری نظر میں پولیس محتسب کے ادارے کا قیام ہے،جس کا سربراہ سپریم کورٹ کا ریٹائرڈجج ہونا چاہیئے جس کا ہیڈکوارٹر وفاق میں ہواور صوبائی ہیڈکوارٹرہر صوبے کے دارالخلافہ میں ہو،کوئی بھی شخص ایک سادہ کاغذ پر درخواست لکھ کر پولیس محتسب کو پیش کر سکے جو ابتدائی سماعت اور سرسری شہادت کے بعد معاملے کا نوٹس لے اور پولیس کے متعلقہ افسر کو طلب کر کے مناسب حکم صادر فرمائے اور اگر پولیس والا گنہگار پایا جائے تو اسے سزا دینے کا اختیار بھی محتسب کے پاس ہونا چاہیئے،پولیس محتسب کے حکم یا فیصلے کے خلاف محتسب کے ادارے ڈویڑن بینچ کے پاس اپیل کا حق ہونا چاہیئے،اس مقصد کیلئے محتسب کے
ادارے میں کچھ ایڈیشنل محتسب بھی ہونے چاہیئیں جس طرح ہائی کورٹ میں چیف جسٹس کے ساتھ کچھ جسٹس صاحبان ہوتے ہیں اور ایک جسٹس کے فیصلے کیخلاف ڈویڑن بنچ یعنی ڈبل بنچ کے پاس اپیل کا حق ہوتاہے اسکے علاوہ پولیس گردی اور پولیس اختیارات کا ناجائز استعمال بھی سنگین مسئلہ ہے جس کی مثال کسی جوڑے کو پارک یا تفریحی مقام پر دیکھ کر ان سے نکاح نامہ طلب کرنا،کسی شخص کو راستے میں روک کر شناختی کارڈ طلب کرنا اور حیلے بہانوں سے حراساں کرنا، تلاشی کے بہانے کسی کی جیب سے پیسے نکالنا وغیرہ ہیں،ایسے واقعات کی شکایت پرپولیس محتسب کی کاروائی سے شہریوں کو پولیس کی زیادتیوں سے نجات مل جائے گی۔ایک اہم معاملہ پولیس تشدد کا ہے قانون میں کئی ملزم پولیس تشدد کا شکار ہوکر جان کی بازی ہار جاتے ہیں اور پولیس یہ بہانہ بناتی ہے کہ ملزم نے خود کشی کر لی ہے۔پولیس تشدد والوں کو کبھی بھی سزا نہیں ملتی اور معاملے کو دبا دیا جاتا ہے۔ایسے واقعات کا بھی پولیس محتسب کو نوٹس بلکہ از خود نوٹس کا اختیار ہونا چاہیئے،آئین آرٹیکل 9میں تشدد کے خلاف آئینی گارنٹی دی گئی ہے،ہمارے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عام ہیں جس کیلئے سزا دینے کا کوئی ادارہ ہی نہیں۔میرے خیال میں پولیس محتسب کو ایسے واقعات کا نوٹس لینے اور سزا دینے کا اختیار بھی ہونا چاہیئے