پاک ترک دوستی کی نئی جہت

وزیر اعظم پاکستان کے دورے ترکیہ میں دونوں برداراسلامی ملکوں کا تین سال میں باہمی تجارت کا حجم 5 ارب ڈالر تک بڑھانے کا عزم باہمی تعلقات کے واضح ثبوت کے طورپر دیکھا جارہا ہے . شہبازشریف اور ترک صدر طیب ارودغان کے درمیان ہونے والی ملاقات میں تجارت ،سرمایہ کاری ، دفاع اور تعلیم سمیت مختلف شعبوں میں جاری تعاون کا جائزہ لیا گیا ، استنبول میں پاکستان ترکیہ برنس کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شبہازشریف کا کہناتھا کہ حکومت پاکستان ترک تاجروں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ہر ممکن اقدمات کرے گی، مہنگے درآمدی ایندھن کا حوالے دیتے وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ ہم نے شمسی توانائی کے زریعے دس ہزار میگاوٹ بجلی پیدا کرنے کا لائحہ عمل تیار کیا ہے،وزیر اعظم کا موقف تھا کہ اگر ترک سرمایہ کار مذکورہ منصوبہ میں اپنے پیسہ لگاتے ہیں تو نہ صرف انھیں اچھا منافع ملے گا بلکہ پاکستان کو بھی خام تیل کی درآمد سے بچایا جاسکے گا، شبہازشریف نے اس موقعہ پر اعلان کیا کہ شمسی توانائی کے منصوبوں کے لیے اسلام آباد میں جلد خصوصی کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا، وزیراعظم پاکستان کے دورےکی خاص بات یہ بھی رہی کہ انھوں نے ملجم کارویٹ بحری جہاز کا افتتاح کیا ، واضح رہے کہ ملجم منصوبہ ترکی کے قومی بحری جہازوں کی تیاری کا پروگرام ہے جسے ترک بحریہ سنبھالتی ہے ،ان بحریہ جہازوں کی خاص بات یہ ہے کہ جہاں ان کو فوجی نگرانی کے لیے استمعال کیا جاتا ہے وہی انٹلیجنس مشن ، قبل ازوقت وارنگ ، اینٹی سب میرین وارفئیر اوردیگر مشنز کے لیے بھی بروئےکار لایا جاسکتا ہے ، ریکارڈ کے مطابق پاکستان کے لیے ملجم بحریہ جہاز بنانے کا منصوبہ 2018 میں ترک کمپنی کو دیا گیا تھا، گذشتہ برس کے ماہ اگست میں اس منصوبہ کے پہلے جہاز پی این ایس بابر کی افتتاحی تقریب استنبول میں ہوئی جبکہ دوسرے بحری جہاز پی این ایس بدر کا افتتاح مئی 2022 میں کراچی میں کیا گیا ، ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ جہاز پاکستانی بحریہ کےپاس جدید ترین ہتھیار ہیں جو حقیقی طور پر پاکستان کی میری ٹائم سیکورٹی کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کریں گے ، پاکستان ان بحری جہازوں کو سندھ اور بلوچستان کی ساحلی سرحد کی سیکورٹی کے لیےکامیابی سے استعمال میں لاسکتا ہے ، تاریخی طور پر پاکستان اور ترکی کے تعلقات کی بنیاد تقسیم ہند کے فورا بعد ہی رکھ دی گی تھی ، یوں کہا جاسکتا ہے کہ کئی دہائیوں سے پاکستان اور ترکی ایک دوسرے کساتھ خیر سگلالی اور تعاون کا رشتہ نبھاتے چلے آرہے ہیں ، ترکی کی جدوجہد آزادی میں برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں نے جو کردار ادا کیا وہ تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا گیا ، قابل تحیسن یہ ہے کہ ترک عوام نے تاحال برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا، یہی وجہ ہےکہ آج بھی پاکستانیوں کا ترکی میں والہانہ استقبال کیا جاتا ہے ، ترک قوم اس تاریخی احسان کا بدلا یوں دے رہی کہ جب جب پاکستان میں سیلاب یا زلزلہ جیسی قدرتی آفت تباہی لائی ترکیہ کے عوام اور حکومت نے بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کیا ، یہ بھی کوئی راز نہیں کہ مسلہ کشمیر کے حوالے سے ترک قیادت اگر مگر کے سہارے کے بغیر پاکستان کے موقف کی حمایت کرتی چلی آرہی ہے ، ادھر پاکستان نے بھی قبرص کے معاملہ پر ترکیہ کی غیر مشروط طور پر حمایت کی ہے ، ترکیہ اور پاکستان کے تعلقات میں حالیہ گرمجوشی کی ایک وجہ وزیر اعظم پاکستان شبہازشریف اور ترک صدر رجب طیب اردوغان کی سالوں پر محیط دوستی بھی ہے ،شبہازشریف کے وزیر اعظم بنے سے قبل بھی دونوں شخصیات کے قریبی دوستانہ تعلقات رہے ، مثلا جب شہبازشریف وزیراعلی پنجاب کے منصب پر فائز تھے تو انھوں نے ترکی کے کئی دورے کیے ، پاکستان اور ترکی کے دوستانہ تعلقات بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتےیہی وجہ ہے کہ مودی حکومت مسلسل کوشاں ہے کہ پاکستان اور ترکی کے تعلقات کا فروغ ہرگز ممکن نہ ہو، مظلوم کشمیریوں کی حمایت میں ترک قیادت کے بیانات بھی نئی دہلی کی سبکی میں اضافہ کرتے چلے آرہے ہیں، حال ہی میں غیر ملکی اخباری خبر کے مطابق پاکستان اور ترکی نے افغانستان کی تعمیر وترقی میں بھی بھرپور کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے ،دونوں دوست ممالک اس پر متفق ہیں کہ طالبان حکومت کی معاشی مشکلات کو ختم کرنا دراصل لاکھوں افغانیوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کا باعث بن سکتا ہے ، معاملہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ افغانستان کے طول وعرض میں دولت اسلامیہ جیسی شدت پسند تنظیم کا اثر رسوخ ختم یا کم اسی صورت ہوگا جب طالبان حکومت کو اعتدال پسند پالیسوں کے نفاذ پر آمادہ کیا جائے ، پاکستان اور ترکی ایران کے راستے ریلوےلائن کو بھی توسیع دے رہے ہیں . حقیقت یہ ہے کہ ترک صدر پاکستان کے ساتھ دفاعی تعلقات کو مذید مضبوط کرنے کے خواہاں ہیں ، طیب اردوغان جنوبی ایشیا میں پاکستان کساتھ تعلقات کو مذید مستحکم کرنے کے حوالے واضح حکمت عملی پر کاربند ہیں، ماہرین کا خیال ہے کہ وزیر اعظم پاکستان اور ترک صدر کی دوستی کے ثمرات آنے والے دنوں میں یوں بھی ?ظاہر ہوسکتے ہیں کہ ایک طرف ترک سرمایہ دار پاکستان کے مختلف شعبوں میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کریں جبکہ دوسرے جانب مسلہ کشمیر سمیت شبہازشریف حکومت کی خارجہ پالیسی کو آگے بڑھانے کے لیے ترکی اپنا کلیدی کردار کرے۔