نئے سپہ سالار، خوش آمدید

نئے فوجی سربراہ کی تعیناتی کو سیاسی رہنماو¿ں نے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا رکھا تھا عجیب وغریب تجزیوںکا مقابلہ جاری تھا ایسا تاثر دیا جارہا تھا جیسے پورا ملک اس مسئلے میں الجھا ہوا ہے بلا شبہ پاکستان ایک نیشنل سیکورٹی اسٹیٹ ہے دیگر اداروں کی نسبت ہماری فوج نے اپنے آپ کو منظم اور مضبوط فوج بنا یا ہے۔ بار بار کے مارشل لاﺅں کی وجہ سے بھی فوج کا سیاست میں کردار نہایت بڑھ گیا ہے لیکن کسی جمہوری دور میں آرمی چیف کی شخصیت اور تقرری پر ایسی بحث پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی جو گزشتہ چند ماہ سے ہورہی تھی۔اس غیرضروری بحث کا کریڈٹ ویسے تو سب سیاستدانوں کو جاتا ہے لیکن تاج بہرحال عمران خان کے سر ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف کیلئے سارا جہاں ایک طرف اور نیا آرمی چیف دوسری طرف تھا ۔ان کے انٹرویوز، عدالتی چارہ جوئیوں، سوشل میڈیا مہمات اور لانگ مارچ وغیرہ الغرض سب سرگرمیوں کامحور و مرکز یہی ایک نکتہ تھا ۔یہی وجہ ہے کہ آرمی چیف کی تقرری غیر معمولی ایشو بن گیا -
وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے سنیارٹی کی بنیاد پر عاصم منیر کو نیا آرمی چیف اور جنرل ساحر شمشاد مرزا کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی تعینات کرنے کا فیصلہ ملک وقوم کے لئے نیک فال ثابت ہوگا-پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت کسی افسر کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آنے پر وزارت دفاع میں ایک پر میشن کی درخواست آتی ہے اسی طرح عاصم منیر نے بھی وزارت دفاع میں ریٹائرمنٹ کے لئے پر میشن درخواست دی جسے وزارت دفاع نے مسترد کرتے ہوئے انہیں ری ٹین کرنے کا فیصلہ کیا-جنرل عاصم منیر پاک فوج کے17ویں سربراہ ہوں گے۔ نئے سربراہ جنرل عاصم منیرپاکستان ملٹری اکیڈمی کے فارغ التحصیل نہیںانہوں نے آفیسرز ٹریننگ سکول منگلا سے تربیت مکمل کرکے پاک فوج میں شمولیت اختیار کی دوران تربیت انہیں بہترین کارکردگی پر اعزازی شمشیر سے نوازا گیاحافظ قرآن جنرل عاصم منیر کی کارگردگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ مضبوط پرو فائل کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔نئے نامزد چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا کا پاک فوج میں کیریئر شاندار خدمات پر محیط ہے ، پی ایم اے سے تربیت مکمل کرنے کے بعد انہوں نے سندھ رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی اور مختلف اہم عہدوں پر فرائض سرانجام دیتے ہوئے موجودہ مقام تک پہنچے ہیںجنرل ساحر شمشاد مرزا گزشتہ سات سالوں کے دوران کئی اہم عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں ۔ بانی پاکستان کی زیر قیادت ہندوستان کے مسلمانوں کی پر امن تحریک کے نتیجہ میں14اگست1947کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو یہ ایک جمہوری عمل کا نتیجہ تھا جس کے ممکنہ نظام کے لئے بھی علامہ محمد اقبال نے اپنے خطبہ الہ آباد اور قائد اعظم نے اپنی مختلف تقاریر میں اصول وضوابطہ متعین کردیئے تھے اس کی روشنی میں مملکت خداداد کو جدید اسلامی' جمہوری اور فلاحی ریاست کے سانچے میں ڈھلنا تھا-اگر قائد اعظم محمد علی حناح مزید کچھ عرصہ زندہ رہتے تو دستور پاکستان کی شکل میں اس نو تشکیل شدہ مملکت کے نظام کا ڈھانچہ بھی مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہوجاتا ہے مگر قیام پاکستان کے ایک سال بعد اور قائد اعظم کی رحلت کے بعد اسٹیبلشمنٹ اور مفاد رست سیاست دانوں نے باہم گٹھ جوڑ کرلیا۔یکے بعد دیگرے حکومتوں کی تبدیلی کے بعد1956کا پارلیمانی جمہوری آئین مرتب ہوا تو اس آئین کی سبوتاژ کرنے کے لئے اس کی تشکیل کے دو سال بعد ہی ایوب خان نے شب خون مار کر اقتدار پر ماورائے آئین تسلط جمالیا-یہی وہ بد نصیب دن تھا جب ملک میں آمریت کا کانٹا ابھر کر سامنے آیا ۔ اس وقت کے چیف جسٹس محمد منیر نے نظریہ ضرورت کی اختراع نکال کر فوجی حکمرانی کو آئینی جواز فراہم کرنے کا راستہ دکھایا۔ جنرل ایوب کے بعد جنرل ضیاءاور جنرل پرویز مشرف نے بھی جمہوری حکومتوں کو چلتا کیا اور اس طری قیام پاکستان کے اصل مقاصد سے ہٹ کر وطن عزیز کے34برس آمروں کے بھینٹ چڑھا 2007-وہ سال ہے جب عدلیہ میں آمریت کا کانٹا نکالنے کی سوچ نے جنم لیا جس کا باعث پرویز مشرف کا وہ قدم بنا جس کے تحت انہوں نے چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری کو اپنی ٹیم کے رو برو طلب کرکے استعفی مانگا اور انکار کے بعد انہیں معطل کرکے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا۔ یہی وہ گھڑی تھی جس سے آمریت کے سائے کو دفن کرنے کا راستہ نکلا اور پھر وکلاءاور سول سوسائٹی کی تحریک کے نتیجہ میں نہ صرف چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اپنے منصب پر بحال ہوئے بلکہ پرویز مشرف بھی وردی اتار کر اپنی پپٹ اسمبلی سے خود کو دوبارہ صدر منتخب کرانے پر مجبور ہوئے جبکہ وردی اترنے کے بعد ان کی آمریت کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی اور اپنے مواخذے کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے بعد وہ منتخب ایوان کے موڈ کو بھانپ کر صدر کے منصب سے مستعفی ہونے اور اقتدار کے ایوانوں سے باہر جانے پر مجبور ہوئے۔ پرویز مشرف کی آرمی چیف کے منصب سے علیحدگی کے بعدجنرل اشفاق پرویز کیانی نے پاک فوج کے سربراہ کا منصب سنبھالتے ہی فوج کو سیاست سے دور رکھنے اور سول حکومت کے تابع رہ کر فرائض سرانجام دینے کا جو عہد کیا تھا ہماری عسکری قیادت نے ہر قسم کے حالات میں اس عہد کونبھا کر دکھا یا ہے ورنہ 16سال سے سلطانی جمہور سے وابستہ حکمرانوں کے جو لچھن رہے ہیںاور اپنے پورے عہد اقتدار میں انہوں نے عوام کے لئے روٹی روز گار' مہنگائی اور توانائی سے متعلق مسائل کو سنگین سے سنگین تر کرکے جس طرح عوام کو جمہوریت سے متنفر کرنے کی کوشش کی ' ملک کی مسلح افواج کی قیادت ماضی جیسے کسی طالع آزما جرنیل کے ہاتھ میں ہوتی توسلطانی جمہور کی بساط کب کی لپٹ چکی ہوتی نئے سربراہ جنرل عاصم منیر کی اپنی سوچ اور پالیسی ہوگی - ملک کے حالات' بحرانوں' مسائل ومشکلات کو فوج کبھی بھی نظر انداز نہیں کرسکتی-اس حوالے سے فوج کا کردار اور پالیسی واضح ہے لیکن غیر معمولی حالات کے اپنے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں جنہیں نبھانا ضروری ہوتا ہے اصل معاملہ سیاسی قیادت کا ہوتا ہے کہ وہ جمہوری اصولوں کی پر کتنی مضبوطی سے کھڑی ہے اس حوالے سے ارض پاک میں صورت حال کچھ زیادہ خوش کن نظر نہیں آتی ۔ پاک فوج کی قیام پاکستان سے آج تک وطن عزیز کی حفاظت' ترقی وخوشحالی کے لئے بے مثال قربانیاں ہیں ملکی سالمیت کا یہ تقاضا ہے کہ پوری قوم نئی فوجی قیادت اور اپنے جانباز وجانثار جوانوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوکر ان قوتوں کو منہ توڑ جواب دے جو پاک فوج اور اس کی قیادت کو متنازعہ بنانے اور نوجوان نسل کے ذہنوں میں ان کے خلاف زہر گھولنے میں مصروف ہیں- جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملک وقوم کے لئے خدمات ڈھکی چھپی نہیں انہوں نے ملک کے لئے بہت کام کئے ہیں جن کا کریڈٹ انہیں ملنا چاہیے۔