پیر،3 جمادی الاول 1444، 28 نومبر 2022ء

ہنگو خیبر پی کے میں پی ٹی آئی کے رہنما نے صحافی کو لات مار دی
ابھی تک تو ہم یہی سمجھتے تھے کہ یہ کام دراز گوش کا ہوتا ہے۔ مگر اب یہ غلط فہمی بھی دور ہو گئی ہے۔ کوئی بھی سیاستدان تلخ یا چبھتا ہوا سوال پوچھنے پر بے چارے صحافی پر دولتیاں جھاڑ سکتا ہے۔ اس لیے آئندہ کوئی بھی صحافی اگر کوئی خطرناک قسم کا سوال کرے تو اپنے اور سیاستدان کے درمیان خاصا مناسب فاصلہ رکھے۔ فاصلہ تو ہنگو کے اس صحافی نے بھی رکھا تھا مگر یہ علاقہ چیئرمین کچھ زیادہ ہی پھرتیلا نکلا اور دور سے آ کر صحافی کو لات مار کر گرا دیا جس سے بے چارے کا موبائل بھی ٹوٹ گیا اور پیٹ میںآنتیں تک ہل گئیں۔ سوال ہنوز تشنہ لب ہے جو اس نے پوچھا تھا کہ جناب آدمی کیوں کم ہیں لانگ مارچ میں شرکت کے لیے جانے والے جلوس میں،بس یہ سوچھنے کی دیر تھی موصوف بھڑک اٹھے۔ امید ہے آئندہ بہادر بننے کی کوشش کرنے والے دھان پان سے صحافی احتیاط سے کام لیں گے یا پھر پہلوان نما دو بندے ساتھ رکھیں گے جو کم از بچانے کا کام تو کریں۔ صحافت اور سیاست میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اب معلوم نہیں چولی کون ہے اور دامن کون۔ ہاں البتہ چولی کے نیچے کیا ہے اور دامن کے پیچھے کیا ہے سب جانتے ہیں۔ اس لیے دونوں کو احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ بڑے بڑے جغادری سیاستدانوں اور زورآور حکمرانوں سے صحافیوں نے اس سے ہزار گنا سخت سوال کیے مگر کیا مجال ہے جو کسی نے ایسی خطرناک کوشش کی ہو۔ اب کہیں لات مارنے والے رہنما کے دوست احباب اور کارکن بھی ان سے دور دور نہ رہنے لگیں کہ کیا معلوم کسی بات پر ناراض ہو کر وہ انہیں بھی گھونسوںکے ساتھ لاتوں پربھی رکھ لیں۔
٭٭٭٭٭
متنازعہ ٹویٹ پر اعظم سواتی کو گرفتار کر لیا گیا
اس بار اعظم سواتی نے قدرے ہاتھ ہلکا رکھا ہے۔ اب وہ لڑے نہیں جھگڑے نہیں نہایت خاموشی سے گرفتاری کے لیے آنے والوں کے ساتھ چل پڑے اور کہا کہ اب قانون کے مطابق ایف آئی اے والے مجسٹریٹ سے وارنٹ لے کر گرفتار کرنے آئے ہیں۔ الزامات ان پر وہی ہیں ان کے متنازعہ بیانات۔ اب دیکھنا ہے وہ کس طرح ان کا دفاع کرتے ہیں، بے شک ’’بول کے لب آزاد ہیں تیرے‘‘ مگر جہاں دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے وہاں ہماری چھڑی گھمانے کی آزادی ختم ہو جاتی ہے۔ یہ صدیوں پرانا مقولہ ہے، مگر ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جو لوگ سوشل میڈیا پر غلط سلط لکھ رہے ہیں بول رہے ہیں کیا ان کا جرم بھی اعظم سواتی جیسا نہیں۔ اگر ہے تو پھر ان سے رعایت کیوں ، اس وقت بے شمار لوگ سوشل میڈیا پر مکروہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں ان میں سے اکثریت کو تو ان کے گھر والے بھی کسی ’’جوگا‘‘ نہیں سمجھتے سبزی لانے کے لیے پیسے دیتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ خود کھا جائے گا۔ ان کو بھی ذرا فارغ اوقات میں دیکھ لیا جائے کہ کیا کہتے پھرتے ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ گزشتہ دنوں لاہور میں عاصمہ جہانگیر کی یاد میں کانفرنس کے موقع پر جو کچھ وہاں موجود قوم پرست مقررین نے کہا ۔ ان کے خلاف مقدمہ کیوں نہیں بنا۔ کیا انہیں وکلا تنظیموں کی آڑ ملی تھی۔ سوشل میڈیا سے ہزار گنا زیادہ سخت تقریریں ہوئیں۔ اس پر ریاست خود مدعی بن کر اپنی حرمت کی بے حرمتی کرنے کے مقدمات درج کیوں نہیں کرتی۔ یہ سب کچھ پنجاب میں ہوا جسے یہی مقررین اپنے اپنے صوبے میں گالیاں دیتے اور بُرے القاب سے نوازتے ہیں ۔ ذرا ان کی بھی خبر لیں۔ وہ تو پاکستانی پرچم کی سرعام توہین کرتے نہیں چوکتے اب تو ان کی ہمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ کراچی، لاہور، اسلام آباد میں بھی یہ کچھ کرتے ہیں۔ یہاں قانون نافذ کرنے والے کیوں خاموش ہیں۔
٭٭٭٭٭
آزاد کشمیر میں 31 سال بعد بلدیاتی الیکشن کا انعقاد
چلیں اس بہانے 31 برس پہلے پیدا ہونے والے بچے اب اپنے اپنے گلی محلے میں جہاں انہوں نے کھیلتے ہوئے دن گزارے سکول اور کالج کی راہ دیکھی یا کھیتوں میں کام کیا محنت مزدوری کی، دکان چلائی، ڈرائیونگ سیکھی ، اب وہ انہی محلوں گلیوں کے مسائل حل کرنے کے لیے وہاں کے اپنے بلدیاتی امیدواروں کو ووٹ دے کر منتخب کریں گے۔ اسی طرح مسائل کا حل گھر کی دہلیز پر والا منظر آزاد کشمیر میںپھر دیکھنے کو ملے گا۔ بلدیاتی نظام اگر اچھے طریقے سے چلایا جائے تو یہ جمہوریت کی بہترین نرسری ثابت ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں اسے پسند کیا جاتا ہے۔ جہاں جہاں یہ نافذ ہے لوگ اس سے مطمئن ہیں، ہمارے ہاں بھی کبھی یہ بی ڈی سسٹم بھی بلدیاتی نظام کے نام سے نافذ ہوا مگر اسے زیادہ شہرت موری ممبر کے نام سے ملی۔ یہ کوئی شرمندگی کی بات نہیں، گلیاں، نالیاں ، نلکے، فٹ پاتھ، گیس ، پانی ، بجلی اور صفائی ستھرائی کا سارا کام یہی لوگ کراتے ہیں۔ ان ترقیاتی کاموں کے لیے انہیں وافر فنڈز ملتے ہیں۔ ان کے نام کی تختیاں لگتی ہیں۔ جبھی تو سیاستدان اور ان کے پیسے والے رشتہ دار و احباب کے علاوہ بدمعاش اور جرائم پیشہ لوگ بھی اس طرف راغب ہو کر ا س آسان الیکشن کو مہنگا اور خطرناک بنا رہے ہیں۔ حکومت ایسی کوئی پابندی ضرور لگائے کہ غنڈے بدمعاشی اور دو نمبر لوگ یہ الیکشن نہ لڑ سکیں۔ عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے اچھے لوگوں کو آگے آنا چاہیے تاکہ شہر ہوں یا دیہات گلی محلوں کے معاملات وہاں پر حل ہوں ا ورایم ایل ایز وہ کام کریں جن کے لیے انہیں ووٹ دیا جاتا ہے۔ وہ قومی سطح پر سوچیں اور کام کریں، گلی محلے سے اب نکل جائیں تو بہتر ہے۔
٭٭٭٭٭
پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا خدشہ صرف 20 فیصد ہے: بلوم برگ کی رپورٹ
خدا نہ کرے کہ پاکستان ڈیفالٹ ہو۔ جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں وہ ہمارے دوست ہوں یا دشمن، اپنے ہوں یا غیر ان کے منہ میں خاک۔ کوئی احمق شخص بھی اپنے ملک کو ڈیفالٹ ہوتے نہیں دیکھ سکتا نہ اس کی خواہش کرتا ہے۔ دیوالیہ ہونا تباہی کی علامت ہے اور خدا پاکستان کو اس برے وقت سے ہمیشہ بچائے۔ اپوزیشن جماعت کی طرف سے اس طرف جس طرح بار بار ملک کا دیوالیہ نکلنے کی دہائی دی جاتی ہے خدا جانے یہ ان کی خواہش ہے یا بددعا۔ اللہ کریم ملک پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچائے۔ ایک طرف مخالفین یہ پروپیگنڈا کرتے پھر رہے ہیں جس سے عوام کی اکثریت تشویش میں مبتلا اور پریشان ہوتے ہیں۔ یہ تو خدا کا شکر ہے کہ سعودی عرب، چین، قطر اور امارات جیسے ہمارے دوستوں نے قرضوں کی وصولی مؤخر کر کے اور اربوں ڈالر ہمارے خزانے میں رکھوا کر ہمیں مشکل وقت سے نکال دیا ہے۔ اب اس تناظر میں گزشتہ روز بلوم برگ نے بھی اپنی رپورٹ میں مثبت بات کہی ہے۔ بلوم برگ کی دیوالیہ ہونے کا چانس صرف 20فیصد ہے۔ گویا 80 فیصد ہماری معاشی اور خزانہ کی حالت بہتر ہے۔ یہ ایک نہایت اچھی خبر ہے جو ایک مستند عالمی معاشی ادارے نے جاری کی ہے ورنہ اپوزیشن سیاستدانوں کے منفی بیانات اور تبصرے سن سن کر توصرف پریشانی ہوتی ہے۔ دعا ہے یہ معاشی بحران جو جاری ہے جلد دور ہو اور ح کمران مثبت اقدامات کر کے ملکی خزانے کو تباہ کرنے کی بجائے سنبھالنے میں کامیاب ہوں۔
٭٭٭٭٭