خوشحال اور مضبوط پاکستان کیسے، ذمہ داری کس کی؟
ہماری انتظامی، معاشی اور مالیاتی کمزوریوں اور نااہلی کی وجہ سے قدرتی اور انسانی وسائل سے مالا مال پاکستان معاشی طور پر دنیا کے پسماندہ ترین ممالک کی صف میں کھڑا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کی نہ ختم ہونے والی سیاسی جنگ اور کشمکش نے ہمارے ’’ایشین ٹائیگر‘‘ بننے کے خواب کو چکنا چور کر کے رکھ دیا۔ سیاست دانوں اور حکمرانوں کی انہی حرکتوں کی وجہ سے قرضوں میں جکڑے اس پاکستان کی شرح نمو اس خطے میں سب سے کم ہے اور مہنگائی میں اضافے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ یہ بات یقیناً افسوس ناک ہے کہ جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں بے حد تک اضافہ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے جان لیوا بیماریوں کا شکار مریضوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ ڈالر کی اونچی اڑان، روپے کی بے قدری، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، شرح سود میں اضافہ، صنعتی تجارتی اور زرعی شعبے کی تباہی، درآمدات میں ریکارڈ اضافہ اور برآمدات میں کمی کی وجہ سے توازن تجارت بُری طرح بگڑ چکا ہے۔۔ اسی معاشی بدحالی کی وجہ سے پاکستان میں بے روزگاری اور غربت میں اضافے کا گراف مسلسل اوپر جا رہا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور مختلف حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کے باعث ہمارا مینوفیکچرنگ سیکٹر تباہ ہو چکا ہے اور ہم بیرونی ممالک کی مصنوعات کی منڈی بن چکے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے تجارتی شعبے پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا راج ہے رہی سہی کسر سمگلنگ کے دھندے نے پوری کر دی ہے۔ ہماری ہر آنے والی حکومت نے معیشت کو بحال کرنے کی بجائے اسے بیرونی قرضوں کے سہارے چلانے کی ناکام کوششیں کیں جس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ اس آزاد قوم کا ہر پیدا ہونے والا بچہ بھی مقروض پیدا ہو رہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے حضرت قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں انگریزوں اور ہندوئوں کی غلامی سے کیوں نجات حاصل کی تھی؟ برصغیر کے مسلمانوں نے آزاد وطن حاصل کرنے کے لیے بھاری جانی اور مالی قربانیاں کس عظیم مقصد کے لیے دی تھیں؟ قیام پاکستان کے اعلیٰ اور ارفع مقاصد کو کیوں فراموش کر بیٹھے ہیں؟ آخر کب تک ہم اپنی کوتاہیوں، ناکامیوں اور نااہلیوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوششیں کرتے رہیں گے؟ ہم کب ایک ذمہ دار، خوددار اور محنتی قوم کی طرح متحد ہو کر اپنے مسائل کو خود حل کرنے کے لیے میدان عمل میں نکلیں گے؟ ہم میں سے ہر ایک فرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے فرض کو پہچانتے ہوئے پوری ایمانداری، دیانتداری اور عزم کے ساتھ جدوجہد کرے۔ ملک کے تمام سیاستدانوں کا یہ فرض ہے اور وطن کا ان پر قرض ہے کہ وہ اپنے سیاسی اختلافات اور ذاتی مفادات کو پس پُشت ڈالتے ہوئے ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لیے متحد ہو جائیں، تمام قومی اداروں کو نئے عزم حوصلے ولولے اور محنت کے ساتھ ساتھ اپنے فرائض آئین اور قانون کے دائرے کے اندر انجام دینا ہونگے اور قومی مفادات کو ہمیشہ مقدم رکھنا ہو گا۔ امن و امان کے قیام، یکساں اور فوری انصاف کی فراہمی قانون کی بالادستی، جمہوریت کے فروغ اور قدرتی و انسانی وسائل سے بھرپور استفادہ کیلئے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا۔ ایک جیسے قواعد و ضوابط اور قوانین کا نفاذ کرنا ہو گا۔ ہمارے ماہرین کا یہ فرض ہے کہ وہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے اپنے اپنے شعبوں کی ترقی کیلئے قابلِ عمل منصوبے بنائیں، ملک کو قرضوں کے چُنگل سے آزاد کروانے اور معاشی طور پر مضبوط بنانے کیلئے جامع حکمت عملی تیار کریں۔ ملک میں تیز رفتار صنعتی ترقی، سرمایہ کاری، بیمار صنعتوں کی بحالی اور پاکستان اسٹیل ملز جیسے عظیم قومی ادارے کو فعال کرنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر منصوبہ سازی کریں۔ قومی اداروں کو ’’نجکاری کی بھٹی‘‘ میں جھونکنے کی بجائے انہیں خسارے سے نکالنے کے لیے ہنگامی اقدامات بے حد ضروری ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس خطہ ارضی کے پہاڑوں، صحرائوں اور گہرے پانیوں یعنی سمندر کو توانائی کی دولت سے مالا مال کر رکھا ہے۔ ہمیں قدرت کی ان نعمتوں سے بھرپور استفادہ کرنا ہے اور تیل کی تلاش بھی کر نی ہے اور کوئلے ،پانی اور ہوا سے بجلی بھی پیدا کرنی ہے سب سے بڑھ کر قومی اتفاق رائے پیدا کر کے کالا باغ ڈیم سمیت بڑے بڑے ڈیم بھی تعمیر کرنے ہیں کیونکہ ان میں مزید تاخیر سے توانائی کے کئی نئے بحران سر اٹھا رہے ہیں جبکہ رہی سہی کسر ہندوستان کی آبی جارحیت نے نکال دی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم اللہ کے دئیے ہوئے انعامات، پانی کی فراوانی ، قدرتی معدنیات اور توانائی کے خزانوں سے استفادہ نہ کر کے کفرانِ نعمت کے مرتکب ہو رہے ہیں جس کی سزا غربت، مہنگائی، بے روزگاری، معاشی تباہی اور بحرانوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کی شکل میں ہمیں مل رہی ہے اگر ہم تھر کے کوئلے کے ذخائر اور بلوچستان میں ریکوڈک کے اربوں ڈالرز کے سونے کے ذخائر سے ہی صحیح معنوں میں استفادہ کر لیں تو ملک میں ہر طرف خوشحالی آ سکتی ہے۔ وہ زرعی ممالک جو اپنی زراعت اور لائیو سٹاک کے شعبے کو ترقی نہیں دے سکتے کیا وہ کبھی ترقی کرنے کا خواب دیکھ سکتے ہیں؟ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری نہ تو کوئی حکمت عملی ہے اور نہ ہی کوئی منصوبہ بندی،صرف وعدے ، دعوے اور سیاسی نعرے ہیں۔ ہم تو محض جمہوریت، جمہوریت کے نعرے لگا کر عملاً آمریت کو ہی پروان چڑھانے کے فن کے ماسٹر ہیں۔ فضول خرچی، وقت کا ضیاع، فرضی اعداد و شمار، جعلی سروے، جھوٹے بیانیے، مالی بدعنوانی، مفاد پرستی، اقربا پروری اور لاقانونیت سمیت مختلف مافیا نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے اور ہم پھر بھی خوشحالی اور ترقی کے ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ نہ جانے وہ وقت کب آئے گا جب ہم اپنی غلطیوں کوتاہیوں اور ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے قوم کو حقائق سے آگاہ کریں گے؟۔