یہاں تک تو پہنچے ، یہاں تک تو آئے

16دسمبر سقوط ڈھاکہ کا دن اسلامی تاریخ میں دوسری کربلا کا نام ہے ۔ اس روز سپاہ پاکستان کے جنرل نیازی نے پلٹن میدان ڈھاکہ میں ہندوستانی جنرل کے آگے نوے ہزار شہریوں اور فوجیوں سمیت ہتھیار ڈالے تھے۔
اس دن سرخی ایسی تھی اخباروں پر
گونگے ہو گئے شہر کے سارے ہاکر بھی
سیاسی قبیلے سے تعلق رکھنے والے نوائے وقت کے کالم نگار ڈاکٹر محمد اجمل خاں نیازی یاد آگئے ۔ اس پر ان کا کہنا تھا ’’کاش جنرل نیازی ، نیازی نہ ہوتا یا پھر میں نیازی نہ ہوتا‘‘۔ 16دسمبر کے افسردہ دن ایک درد دل رکھنے والے صاحب نے کہا تھا ’’مجھے اس روز ڈھور ، ڈنگر، بیلوں کے گلے میں بجنے والے گھنگھروبھی رنج پہنچاتے ہیں‘‘۔ سقوط ڈھاکہ کے چند ماہ بعد علامہ اقبالؒ کا یوم ولادت تھا۔ اس سلسلہ میں لاہو ر مجلس اقبال کے زیر اہتمام ایک تقریب تھی ۔ مجلس اقبال کے جنرل سیکرٹری حضرت آغا شورش کاشمیری نے مشیر کاظمی کو نظم پڑھنے کی دعوت دی۔ وہ مائیک پر آتے ہی کہنے لگے ۔ آج صبح حضرت اقبالؒ کے مزار پر پھول چڑھانے گیا تھا ۔ وہیں سے آرہا ہوں ۔ پھر انہوں نے نظم سنانی شروع کی ۔
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبالؒ سے آرہی تھی صدا
یہ وطن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
پوری نظم نہ شاعر سنا سکا اورنہ ہی حاضرین سن سکے ۔ شاعر کی آواز حاضرین کی سسکیوں اور آہوں میں دب گئی ۔ سقوط ڈھاکہ کے روز واہگہ پار سے اک للکار بھی سنائی دی تھی ۔یہ پنڈت جواہر لال نہروکی بیٹی ہندوستانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی آواز تھی ۔ اس نے کہاآج ہم نے دو قومی نظریہ بحیرہ عرب میں غرق کر دیا ہے ۔ یہ مسلم تاریخ کی سب سے بڑی فوجی شکست تھی ۔ پچھلے دنوں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جی ایچ کیو میں یوم دفاع اور شہداء کی پر وقار تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ سقوط ڈھاکہ فوجی نہیں سیاسی شکست تھی۔ کیایہ سیاسی شکست تھی؟اس شکست کے عوامل اور اسباب پر غور کرتے ہوئے آپ بیشک اسے فوجی سے زیادہ سیاسی شکست کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اس سوال کا جواب کیا ہے کہ ان دنوں سیاست کی باگ ڈور کن ہاتھوں میں تھی ۔ فوج کے ہاتھوں میں یا سیاستدانوں کے ؟ صدر ایوب کے آئینی حکومت کاتختہ الٹنے سے لے کر ذو الفقار علی بھٹو کی بطور سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تقرری تک اقتدار بلا واسطہ جرنیلوں کے ہاتھ ہی رہا۔
یہ آزادی کے ابھی ابتدائی دن تھے جب حضرت قائد اعظمؒ کو ایک فوجی افسر پر واضح کر نا پڑا کہ وہ یہ نہ بھولے کہ قومی پالیسی آپ نہیں بناتے ، ہم سویلین افراد اس کا فیصلہ کرتے ہیں۔ لیکن پھر ہمارے ہاں اس پائے کا کوئی لیڈر ہی نہ تھا ۔ایک آرمی چیف کو وزیر دفاع بننے کی پیشکش ہوئی جو اس نے اس شرط پر قبول کی کہ وہ آرمی چیف کا عہدہ نہیں چھوڑے گا۔اب وہ اپنا خود ہی افسر تھا اور خود ہی ماتحت ۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ امریکہ اور پبلک ریکارڈ آفس برطانیہ کی خفیہ دستاویزات سے ہماری تاریخ کے کئی خفیہ گوشے ظاہر ہوتے ہیں۔ 23دسمبر1952ء کو امریکی قونصل خانہ کا خفیہ ٹیلی گرام پڑھیں :’’جنرل ایوب خاں نے ایک ملاقات میں بتایا کہ اس نے پاکستان کے سرکردہ سیاستدانوں سے کہا ہے کہ انہیں ذہنی طور پر دل کی گہرائیوں سے مغرب کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کرنا چاہئے ۔ اس نے کہا کہ پاک فوج سیاستدانوں کو اپنی گرفت سے نکلنے کی اجازت نہیں دے گی اور پاکستان کے عوام کو بھی اپنے کنٹرول میں رکھا جائے گا۔ جنرل ایوب خاں نے کہا کہ اسے اندازہ ہے کہ وہ کتنی بڑی ذمہ داری لے رہے ہیں‘‘۔ پھر جنرل ایوب خاں ویسے ہی گرم موسم والے ملکوں کے لئے جمہوریت قطعاً غیر موزوں سمجھتے تھے ۔ پھر پاکستان کی تاریخ میں یہ سوال بھی بڑا اہم ہے۔ اگر سقوط ڈھاکہ نہ ہوتا تو کیا دوسرے فوجی آمر جنرل یحیٰی خاں سے پنڈچھڑایا جا سکتا تھا ؟ جن دنوں قوم اس سے نجات حاصل کرنے کیلئے سڑکوں پر آئی ہوئی تھی ، وہ قوم کو ایک آئین بخشنے پر تُلا بیٹھا تھا۔ ذو الفقار علی بھٹو نے پوری کوشش کی کہ وہ پاکستان میں ایک پیشہ ور مگر فرمانبردار فوجی ادارہ پیدا کر سکے مگر وہ ناکام رہے۔ قائد عوام کتنے با اختیار تھے ، یہ آپ جسٹس جاوید اقبال اور بھٹور دور کے اسپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی خاں کی آٹو بائیو گرافیوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ جنرل اسلم بیگ نے جنرل ضیاء الحق کی موت پرمارشل لاء نہیں لگایا ۔ انہیں اس کے صلے میں سیاستدانوں کی طرف سے تمغہ جمہوریت بھی دیا گیا۔تصویر کا دوسرا رخ بھی موجود ہے ۔ ایڈمرل سروہی نے لکھا کہ جنرل اسلم بیگ نے الیکشن جیتنے کے بعد بینظیر بھٹو کو پانچ شرائط منوانے کے بعد حکومت دی تھی ۔ ان پانچ شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ جنرل ضیاء الحق کی فیملی کو ہراساں نہیں کیا جائیگا۔ سیاست میں فوج کا عمل دخل کسی فوجی جرنیل نے چھپانے کی کوشش نہیں کی ۔ فوجی افسروں کی آٹو بائیو گرافیاں سب کچھ بتا رہی ہیں۔ جنرل باجوہ 29نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔ ریٹائرمنٹ سے چند روز پہلے انہوں نے اپنی تقریر میں کہاکہ’’ دنیامیں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی بھارتی فوج کرتی ہے لیکن ان کے عوام کم و بیش ہی ان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستانی فوج جو دن رات قوم کی خدمت میں مصروف رہتی ہے ، گاہے بگاہے تنقید کا نشانہ بنتی رہتی ہے ۔ میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ 70سال سے فوج کی مختلف صورتوں میں سیاست میں مداخلت ہے جو غیر آئینی ہے ۔ اسلئے پچھلے سال فروری میں فوج نے سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ فوج کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کریگی۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ اس پر سختی سے کاربند ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے‘‘ ۔ اس اعلان پر کہاں تک عمل کیاجاتا ہے اور کہاں تک عمل کیاجانا ممکن ہے ؟یہ تو وقت بتائے گا۔ لیکن کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا ۔ ہمیں اچھی امید رکھنی چاہئے۔ پھر ایک حاضر سروس آرمی چیف کی طرف سے اپنی غلطی کا اعتراف بھی کوئی چھوٹی بات نہیں۔ اپنی غلطی کا اعتراف اصلاح کی جانب پہلا قدم ہوتا ہے ۔ ان کے پہلا قدم اٹھانے پر قوم بہت خوش ہے ۔ ’چلویہاں تک تو پہنچے ، یہاں تک تو آئے ‘۔
٭…٭…٭