ففتھ جنریشن وار آخر ہے کیا؟(1)
گزشتہ کالم میںبات ففتھ جنریشن وار پر ختم ہوئی تھی۔ آگے چلنے سے پہلے سمجھتے ہیں کہ یہ ’’ ففتھ جنریشن وار‘‘ ہے کس بلا کا نام۔ شروع زمانے میں جنگوں میں فتح کا دارومدار انسانی طاقت اور بہادری پر ہوتا تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں آتشی اسلحہ سب سے اہم ٹھہرا۔ یہ ’’ سیکنڈ جنریشن وار‘‘ تھی۔ دوسری جنگ عظیم نے ’’ تھرڈ جنریشن وار‘‘ کو جنم دیا جس میں آتشی اسلحے کے علاوہ بحری اور فضائی طاقت کے مربوط مظاہرے کے ساتھ پراپیگنڈہ کی جنگی اہمیت اجاگر ہوئی۔ ’’ فورتھ جنریشن وار‘‘ میں میدان جنگ ہی کسی اور ملک میں منتقل کر کے کوشش کی گئی کہ جنگ میں عملی حصہ لینے والوں کی اکثریت اپنے ملک کی نہ ہو تاکہ اپنا جانی نقصان کم سے کم ہو ( جیسے افغان جنگ) ۔ اور آجکل ففتھ جنریشن وار عملی حقیقت بن چکی ہے جس میں نہ آتشیں اسلحہ سے لیس کوئی فوج حصہ لیتی ہے اور نہ اعلان جنگ کیا جاتا ہے۔ اس کا تصور کچھ اس طرح ہے کہ اپنی فوج ہزاروں کی تعداد میں مروا کر کسی ملک پر قبضہ کرنے کا مقصد اگر اس ملک کے کسی خاص نظریے کو تباہ کر کے اپنا نظا م، نظریہ اس ملک پر مسلط کرنا اور اس دشمن قوم کے ادارے، تعلیم، اقدار ، معیشت وغیرہ کو زیر نگیں رکھنا ہے تو کیوں نہ یہ سب کچھ اس قوم کے ذہن، نظریے اور سوچ کو اپنی مرضی اور اپنے حق میں تبدیل کر کے حاصل کر لیا جائے؟ وہ بھی اس طرح کہ مفتوح قوم کو احساس ہی نہ ہوکہ یہ حملہ اور اس کے اصل اہداف کیا ہیں۔
یہ اب کوئی خفیہ تصور نہیں بلکہ ایک مکمل اور تسلیم شدہ سائنسی نظام ہے جسکا پہلا کامیاب تصور ایک امریکی نفسیات دان ’’ مسٹر سکرپچر‘‘ نے 1897 ء اور اس کے بعد اپنی کتب اور مقالہ جات میں دیا روس میں ـــ’’ ماسکو میڈیکل اکیڈمی ‘‘ نے 70 کی دہائی میں ’’ سائیکو کوریکشن‘‘ نام کا ایک نظام تشکیل دیا جو دشمن کے دماغ اور نظریات کو کنٹرول کرنے کی غرض سے بنایا گیا تھا۔ اکتوبر 1992ء میں امریکہ کے ڈاکٹر ’’ اولیو ر لوری‘‘ نے اس قسم کا ایک نظام بنایا اس کا باقاعدہ ’’ پیٹنٹ ‘‘ بھی حاصل کیا جسکا نمبر 5159703 ہے۔ یہ سب ’’ قصے کہانیاں ‘‘ نہیں بلکہ ’’ سائنسی حقائق ‘‘ ہیں۔ دنیا کے کئی دوسرے ممالک بھی یہ تکنیک بطور ہتھیار استعما ل کر رہے ہیں۔ کیا پاکستان کے پاس اس قسم کے حملے کے خلاف کچھ کرنے کے لیے کوئی دفاعی ادارہ یا پالیسی موجود ہے؟
گزشتہ دہائیوں میں کہیں ڈراموں، فلموںمیں، کہیں درسی کتب میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں یا غلطیاں نمودار ہونا شروع ہوئیں۔ مثلاََ پرائمری لیول کی ایک درسی کتاب میں سے یہ الفاظ کہ ’’ نبی کریم ؐ کا قول ہے ، کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے‘‘ کو تبدیل کر کے اس طرح کر دیا گیا ہے کہ ’’مشہور قول ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے‘‘۔ پھر اس طرح کی خبریں ہمیں اکثر پڑھنے کو ملنے لگیں کہ کہیں احادیث مبارک کو سکولوں کی کتابوں سے حذف کر دیا گیا ہے تو کہیں اصحابہ کرام اور مشاہیر اسلام کے متعلق اسباق کو ’’ مغربی ہیروز‘‘ کے متعلق اسباق سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ہوتے ہوتے نوبت یہاں تک آ گئی کہ ہم اپنے بچوں کو اسلام کے بارے میں سکھاتے ہوئے شرمندہ شرمندہ ہونے لگے کہ کہیں میڈیا اور جدید طبقہ ہمیں جاہل یا دہشت گرد نہ سمجھ لے۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ کے نعرے لگانے والوں کے بچے آج پنجاب کے نام پر بھگت سنگھ اور راجہ رنجیت سنگھ کے غم میں دبلے ہوتے نظر آتے ہیں کہ ’’ لا الہٰ اللہ ‘‘ کی خیر ہے لیکن بھگت سنگھ اور راجہ رنجیت سنگھ کے بغیر تو پنجاب کا کلچر اور پنجابیت نا مکمل ہے۔ حالانکہ پنجاب کے کلچر میں پردہ،شرم و حیا اور صوفیا کرام سمیت اور بہت کچھ بھی تھا جو ہمارے کچھ مخصوص میڈیا اور لبرلز کو نہ تو یاد آتا ہے نہ ہمیں یاد کرنے دیا جاتا ہے۔ہوتے ہوتے اب وہ وقت آ چکا ہے کہ ہماری مساجد کی عمارتیں تو اپنی جگہ پر قائم رہیں لیکن عملی طور پر ہمارا ہر گھر مندر میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں بظاہر بے ضرر نظر آنے والے کارٹونوں سے ہمارے بچے رام ، سیتا اور ارجن کے ’’ کردار کی عظمت‘‘ کا سبق سیکھنے لگے ہیں ۔ صحابہ کرام کی بہادری کے قصے پڑھنے والی قوم کی ا گلی نسل ’’ چھوٹا بھیم‘‘ ہنومان اور کرشن کی بہادری دیکھتے جوان ہو رہی ہے۔ جن والدین نے جہاد کے اصول ’’ فتح مکہ‘‘ سے سیکھے تھے ان کے بچوں کے معصوم ذہن کے لیے جہاد کا مطلب ’’ دہشت گردی‘‘ ہے۔ کہاں ہے دو قومی نظریہ؟ کہاں ہے کشمیر کے مظلوم غلاموں کی آواز؟ یہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے؟ یہ ہے اسلام کے نام پر قائم ہونے والی دنیا کی واحد ریاست؟ ہمارے ملک پر کسی دشمن فوج کا قبضہ نہیں، حکومت ہماری ہے، ادارے ہمارے ہیں لیکن ہماری سوچ، افکار، معاشرہ اور معاشرتی نظام تبدیل ہو رہا ہے۔ ہمارے خلاف چھیڑی گئی اس غیر اعلان شدہ لیکن مہلک جنگ کا ’’ میدان جنگ‘‘ ہمارا ہر گھر ہے اور اس جنگ کا سب سے مہلک ہتھیار یا ’’ ویپن آف ماس ڈسٹرکشن‘‘ ہے کہ درسی کتب، میڈیا ، ٹی وی پروگراموں ، فلموں اور مادر پدر آزاد سوشل میڈیا کے ذریعے سے آنے والی نسل کی بنیادی سوچ تبدیل کر کے مذہب اور وطن سے محبت کی بجائے انکے دماغوں میں’’ انسانیت ‘‘کے نام پر وطن او ر مذہب کے بارے میں شکوک و شبہات کے بیج بو دیے جائیں جو آگے چل کر نفرت اور بیزاری کے درخت بن جائیں۔
ہمیں سیاسی، معاشرتی، نظریاتی اور مذہبی طور پر شکست دینے کی غرض سے چھوٹے چھوٹے مطالبات، غلطیوں اور سڑکوں پر موم بتیاں جلانے اور عورت مارچ سے شروع ہونے والی بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ’’ ہم جنس پرستی ‘‘ کی ترویج کے لیے ایوارڈ لینے والی فلم ’’ جوائے لینڈ‘‘ کے بارے میں بحث ہو رہی ہے کہ اسے پاکستان میں ریلیز کرنا مناسب ہے یا نہیں۔ کیا یہ قابل بحث سوال ہے؟ کیا اسکا جواب واضح نہیں؟ بلکہ میرے خیال میں تو میڈیا اور ٹیلی ویژن پر ایسی بحث بذات خود ففتھ جنریشن وار کا ایک مہلک ہتھیار ہے جسکا مقصد آہستہ آہستہ ہماری بے حسی میں اضافہ کرنا اور ہمارے او ر مستقبل کی نسل کے ذہنوں کو انکی منشا کے مطابق ڈھالنا ہے۔ ہم بیوقوفی میں اس سب کے لیے دشمنوں کا آلہ ء کار بنے یہ سوچ رہے ہیں کہ ’’ ٹرانس جینڈرز‘‘ کے بارے میں کوئی بات یا سوال کر دیا تو کہیں دنیا ہمیں دقیانوسی یا انتہا پسند نہ کہہ دے۔ کیا ہم نے جان دنیا کو دینی ہے؟ روز آخرت کا میزان اس عالمی میڈیا نے لگانا ہے؟ ہم کلمہ اسلام کا پڑھتے ہیں یا کسی لبرل نظام کا؟ (جاری ہے)