نئے سپہ سالار
جنرل عاصم منیر پاکستان فوج کے سولہویں سربراہ کی حیثیت سے29نومبر2022ء کو کمان سنبھالیںگے۔ پاکستان کی فوج ایک اسلامی فوج ہے جس کا شمار بلاشبہ دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔ اس بنیاد پر اس طرح کی شاندار سپاہ کا سپہ سالار ہوناا یک بہت بڑے اعزاز کی بات ہے جو صرف چند خوش نصیبوں کو ہی حاصل ہوتا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ کا عہدہ بہت سی وجوہات کی بنا پر نہ صرف ملک کے اندر بلکہ دنیا جہاں میں اہمیت کا حامل ہے اسی وجہ سے ہر کسی کو انتظار اور تجسس تھا کہ فوج کا نیا سربراہ کون بنتا ہے۔ ملک کے اندر بالخصوص گذشتہ کئی ماہ سے اس بارے میں ایک بحث چل رہی تھی جس کا نقطہ عروج گذشتہ دو ہفتے تھے۔ ہر محفل میں ایک ہی موضوع زیر بحث تھا کہ یہ ہما کس کے سر پر بیٹھتی ہے۔ اس کو سیاسی، سماجی اور ہر قسم کا رنگ دیا جا رہا ہے۔ اصولاً فوج میں قیادت کی تبدیلی ایک معمول کا عمل ہونا چاہیے جسے عوامی بحث کا حصہ بھی نہیں بننا چاہیے اور دنیا میں ہر جگہ ہوتا بھی ایسے ہی ہے مگر پاکستان میں بدقسمتی سے اسے ایک عوامی بحث کا سب سے زیادہ زیر بحث آنے والا موضوع بنا دیا گیا ہے اور ہر کوئی اپنی سوچ کے مطابق اس پر رائے دے رہا ہے جو کہ کوئی خوش آئند بات نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یقینا گزشتہ 75 سالوں میں فوج کا ملک کے اندرونی معاملات میں عمل دخل ہے جس کی بنا پر یہ عام تاثر ہے کہ فوج ہی اس ملک میں اصل طاقت کا محور ہے لہٰذا فوج کے سربراہ کی حیثیت بھی کلیدی اور بہت سے حوالوں سے فیصلہ کن سمجھی جاتی ہے۔ اس ساری بحث اور عمل کو دراصل متنازعہ بنانے میں سابق وزیراعظم عمران خان کا کردار بھی بہت اہم ہے جنہوں نے اپریل 2022ء میں ایک آئینی عمل کے بعد اقتدار سے الگ ہونے کا موجب براہ راست فوج کی قیادت کو قرار دیااور گذشتہ 6ماہ سے عام جلسوںمیں آرمی چیف کے عہدے اور اس پر نامزدگی کے بارے میں نہ صرف قابل اعتراض بیانات دیئے بلکہ اسے متنازعہ بنانے کی بھی بھرپور کوشش کی جس سے یقینا ادارے کا مجموعی تاثر بھی بہت متاثر ہوا۔
بہرحال اب خوش آئند بات یہ ہے کہ بالآخر ایک آئینی اور قانونی عمل کے تحت وزیراعظم شہبازشریف نے اپنے اختیارات کااستعمال کرتے ہوئے مسلح افواج کے دو اعلیٰ ترین عہدوں پر تقرریاں کر دی ہیں جن میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اورچیف آف دی آرمی سٹاف شامل ہیں۔ تمام قابلِ فہم اندیشوں کے برعکس صدر عارف علوی نے بھی بوجوہ ان تعیناتیوں کی منظوری دے دی ہے جو کہ یقینا ایک قابلِ ستائش عمل ہے۔ جناب عمران خان نے بھی بظاہر اب اس عمل پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا اور اس کا آنے والے دنوں میں طرزعمل ہی یہ بتائے گا کہ وہ کس حد تک اپنی بات پر قائم رہتے ہیں۔ملک میں ایک ہیجان کی سی کیفیت تھی جو اب بالآخر ختم ہوئی ہے اور امید کی جانی چاہیے کہ تمام سٹیک ہولڈرز اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ایک ذمہ دارنہ رویہ اپنائیں گے تاکہ ملک کو بحران سے نکالا جا سکے۔
پاک فوج کے نئے سربراہ جنرل سید عاصم منیر ہرلحاظ سے ایک بہترین انتخاب ہیں۔ وہ ایک انتہائی اعلیٰ کردار کے حامل ہونے کے علاوہ بہترین پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے بھی مالک ہیں۔ ان کا 38 سال کا فوجی کیریئر اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ پاک فوج کے سربراہ کی حیثیت سے ان کا انتخاب ہر لحاظ سے موزوں اور میرٹ کے عین مطابق ہے۔ ویسے بھی وہ سنیارٹی کے لحاظ سے سب سے سینئر تھے لہٰذا انکا اس اہم عہدے کے لئے انتخاب کر کے وزیراعظم شہبازشریف نے اپنا آئینی او ر قانونی اختیار بہترین طریقے سے استعمال کیا ہے۔ اتنے اچھے انتخاب پر وزیراعظم بھی خراج تحسین کے مستحق ہیں اور انہوں نے آئینی اختیار ہونے کے باوجود بھی جس طرح اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی ہے وہ بھی لائق تحسین ہے کیونکہ افواج پاکستان کی بقا، یکجہتی اور سلامتی کی علامت ہے لہٰذا اس کا سربراہ ایسا ہونا چاہیے جس پر پوری قوم بھی متفق ہو۔ جنرل عاصم منیر کمان، سٹاف اورانسٹرکشن کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور اپنے شاندار ملٹری کیریئر کے دوران وہ انتہائی اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں جس بنا پر ان کے لئے اپنے اہم فرائض منصبی سرانجام دینا مزید آسان ہوگا انکا تعلق انفنٹری سے ہے اور وہ اس رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے چوتھے آرمی چیف ہیں۔ ایک بہترین انفنٹری کمانڈر کی حیثیت سے انہوں نے شمالی علاقہ جات جیسے انتہائی اہم اور حساس علاقے میں ڈویژن کی کمانڈ کی ہے جس بنا پردشمن بھی ان کی قائدانہ اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے اچھی طرح واقف ہے۔ اب تک کی خبریں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ ہندوستان میں انکی تعیناتی پر کسی حد تک تشویش بھی ہے اور یہ بھی ایک سپاہی کیلئے کسی اعزاز سے کم نہیں کہ اس کا دشمن اس سے خطرہ محسوس کرتا ہو۔
ان کا انتخاب پاکستان کے تمام دشمنوں کیلئے بھی ایک واضح پیغام ہے کہ الحمدللہ ہم اپنے فیصلے خود اورملک کے بہترین مفاد میں کرتے ہیں اور انشاء اللہ پاکستان کی سلامتی اور قومی مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔
٭…٭…٭