ڈائیلاگ ضروری ہے

ہمارا ملک اب مزید مسائل کا متحمل نہیں ہو سکتا ایک عرصے سے ہماری سیاست اور طرز حکمرانی جس نہج پر پہنچ چکی ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ اب معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن سے بچانے کیلئے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے یوں بھی تمام مسائل اور معاملات کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہوتا ہے۔ ڈیڈ لاک صورت حال کو تبدیل کرنے کی بجائے معاملات کی سنگینی میں اضافہ کرتا ہے۔ حکومتی اور سیاسی مسائل کا فوری حل ڈائیلاگ کے ذریعے ہی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں سیاسی منافرت جس قدر بڑھی ہے ماضی میں کبھی اتنی شدید نہ تھی۔ اب تو نظریات بھی پس منظر میں چلے گئے ہیں اور صرف نظریہ ضرورت ہی باقی رہ گیا ہے۔ سیاسی وابستگیوں کی بجائے محض ذاتی مفادات ہی اب سیاست میں اہم ہیں۔ اقتدار میں رہنے کیلئے جس قسم کے حربے اور اخلاقی پستی کے واقعات موجودہ سیاست میں سامنے آئے ہیں اس سے پہلے اس قسم کی صورت حال کسی بھی سیاسی منظرنامے میں نہیں دیکھی گئی۔
ماضی میں محض دو سیاسی پارٹیوں کی آپس میں آنکھ مچولی رہتی تھی لیکن اب دو کی بجائے تین بڑی سیاسی جماعتیں میدان عمل میں اتری ہوئی ہیں۔ اس لیے حالات اور نتائج بھی پہلے سے تبدیل دکھائی دے رہے ہیں۔ سیاست میں اب میں نہ مانوں والی روایات چل پڑی ہیں اور حکومت بھی محض اپنے اقتدار کے دوام اور بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف رہتی ہے یعنی نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے ہی سب کے پیش نظر ہوتا ہے
یہ بات بھی طے ہے کہ احتجاج، دھرنوں اور جلسے جلوسوں کی وجہ سے بھی موجودہ ملکی اور سیاسی مسائل کا حل ہونا ممکن نہیں ہے لہٰذا تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو مذاکرات اور ڈائیلاگ کے ذریعے ہی موجودہ ملکی اور حکومتی سیاسی صورتحال کی بہتری کیلئے ایک ایک قدم آگے بڑھنا ہو گا۔
یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ ملکی اداروں کی طرف سے سیاسی عدم مداخلت کا بھی اعادہ کیا گیا ہے اگر ملک کے تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے جس کا کام اس کو ساجھے کے احسن فارمولے پر عمل پیرا ہوں تو ہمارے ملک کے بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے ہماری عدلیہ اور صحافت کو بھی اس حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ سیاسی معاملات کی بجائے عوامی اور معاشرتی مسائل کے حل کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ میڈیا بھی اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھانے اور بریکنگ نیوز سب سے پہلے دینے کا اعزاز حاصل کرنے کی بجائے سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کرے۔ ملک میں مہنگائی کے خاتمے کیلئے کوئی حکمت عملی وضع کرے اور رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے پروگرام نشر کرے نا کہ سیاسی منافرت کو بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ملک میں تمام ادارے میرٹ کو محض زبانی جمع خرچ سے نکال کر عملی طور پر بھی ایسا کر کے دکھائیں۔ ڈائیلاگ کے ذریعے سیاست دان ملک میں شفاف انتخابات پر اتفاق رائے کریں اور پھر جس سیاسی جماعت اور فکر و سوچ کی حامل جماعت کی حکومت آئے اسے تسلیم کر کے اس کی مدت اقتدار کو ہضم کیا جائے اور متواتر اس کی کارکردگی کا جائزہ لے کر آئندہ الیکشن کی حکمت عملی مرتب کی جائے۔ عوام کے چنائو سے آنے والی حکومت ہی دیرپا ثابت ہو سکتی ہے کسی دھونس دھاندلی یا کسی اور طریقے سے آنے والی حکومت کبھی بھی عوام کی توقعات کی آئینہ دار نہیں ہو سکتی۔
ترقی یافتہ ممالک میں حکومتوں کی تبدیلی پرامن اقتدار کی منتقلی اور اقتدار سے نہ چمٹے رہنے کی روایات ہی دراصل وہاں پر جمہوریت کا حسن بنی ہوئی ہیں۔ سیاست میں موروثیت کا خاتمہ بھی بہت ضروری ہے اقرباپروری کی طرح موروثی سیاست بھی ہمارے ہاں ایک ناسور کا درجہ اختیار کرتی جا رہی ہے۔ پارٹیوں کو اپنے کارکنوں کو بھی اہمیت دینی چاہیے اب سیاست کو ڈرائنگ روموں سے نکال کر عوام کی امنگوں کے مطابق چلانا چاہیے تاکہ جمہوریت میں عوام کی حکمرانی کے نعرے کو بھی عملی حیثیت حاصل ہو سکے اور عوام کے ووٹ کی اہمیت بھی تسلیم ہو سکے اب ملکی معیشت بھی تشویشناک ہوتی جا رہی ہے تمام مسائل کے خاتمے کے لئے مشاورت مذاکرات اور ڈائیلاگ کو ہی اہمیت دی گئی تو منظر نامہ تبدیل ہو سکتا ہے بصورت دیگر دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے۔